افغانستان میں نیٹو کی زیر کمان اتحادی افواج پر ہفتہ کو طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے کیے گئے مختلف حملوں میں مجموعی طور پر آٹھ غیر ملکی فوجی ہلاک ہوئے۔ تاہم مرنے والوں کی قومیت یا شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔
اِن میں مہلک ترین حملہ مشرقی لغمان صوبے میں ایک امریکی فوجی اڈے پر کیا گیا جہاں ایک خودکش بمبار نے دھماکا کر کے نیٹو کے پانچ اہلکار ہلاک کردیے۔
اتوار کو اتحادی افواج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اُسی روزافغانستان کے جنوب میں دو الگ الگ بم دھماکوں میں تین دیگر غیرملکی فوجی بھی ہلاک ہوگئے تھے۔
لغمان میں فوجی اڈے پر خودکش حملے میں کم ازکم پانچ افغان فوجی بھی ہلاک جب کہ کئی زخمی ہوگئے تھے۔ طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کا ایک ساتھی ایک ماہ قبل افغان فوج میں بھرتی ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا اور نیٹو کے فوجی اڈے کے اندر موجود تھا۔
طالبان کے ایک ترجمان کے بقول ”ہفتہ کو افغان اور غیرملکی فوجی ایک اجلاس میں مصروف تھے جب اُن کے ساتھی نے موقع ملتے ہی خودکش دھماکا کردیا“۔ افغان حکام نے اگرچہ اس دعویٰ کو رد کیا ہے تاہم اُنھوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ حملہ آور فوجی وردی میں ملبوس تھا۔
اطلاعات کے مطابق اس ماہ افغانستان میں اب تک 23 نیٹو فوجی ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ رواں سال ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد 125 ہو گئی ہے۔
نیٹو حکام نے امکان ظاہر کیا ہے کہ خاص طور پر اس مرتبہ بہار اور موسم گرما میں افغانستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں شدت آئے گی کیونکہ موسم سرما کے دوران جن حصوں پربین الاقوامی افواج نے پیش قدمی کر کے اپنا کنٹرول قائم کیا تھا طالبان وہاں واپس آنے کی کوشش کریں گے۔
افغانستان میں گذشتہ پانچ دنوں میں پانچ خودکش حملے کر کے طالبان عسکریت پسندوں نے بظاہر سکیورٹی فورسز کے خلاف اپنی مہم کو تیز کردیا ہے۔
لیکن جمعہ کو قندھار پولیس کے سربراہ خان محمد مجاہد کی ایک خودکش حملے میں ہلاکت اور اگلے ہی روز لغمان میں نیٹو کے فوجی اڈے پر خودکش بمبار کی مہلک کارروائی دفاعی ماہرین کے خیال میں اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ طالبان میدان جنگ میں پیش قدمی کے بغیر بھی افغانستان میں اہم فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ان دونوں حملوں میں ملوث خودکش بمباروں نے افغان فوج کی وردیاں پہن رکھی تھیں جس سے ان خدشات کو تقویت ملی ہے کہ مقامی پولیس اور فوج میں بھرتی کے افغان حکومت کے ناقص نظام سے فائدہ اٹھا کر طالبان جنگجو بھی سرکاری فورسز میں شامل ہو رہے ہیں۔
صدر حامد کرزئی نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں سلامتی کی ذمہ داریوں کی نیٹو افواج سے سرکاری فورسز کو منتقلی کا عمل جولائی میں شروع ہوجائے گا۔ لیکن دفاعی مبصرین افغان فورسز کی تیاریوں اور صلاحیتوں کے بارے میں تحفظا ت کا اظہار کررہے ہیں۔
امریکہ کے لیے افغانستان میں آئندہ دو ماہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ صدر براک اوباما نے ملک میں تعینات امریکی افواج کی جولائی سے مرحلہ وار وطن واپسی کا عمل شروع کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔