ایسے میں جب افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے بتایا کہ طالبان پر سفری پابندیوں پر استثنی اب ختم ہوگیا ہے، افغانستان کی ایک سابقہ رکن پارلیمنٹ نے اپیل کی ہے کہ عالمی برادری طالبان سے کوئی رو رعایت روا نہ رکھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری خواتین کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی بنا پر ماضی میں جنوبی افریقہ کے لیے استعمال کی گئی نسلی امتیاز کی اصطلاح کی طرز پر طالبان پر صنفی امتیاز کے ارتکاب کا لیبل لگایا جائے۔
سال 2010 میں پارلیمنٹ کی کم ترین عمر میں منتخب ہونے والی سابقہ رکن ناہید فرید نے اقوام متحدہ کی ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ طالبان پر صنفی امتیاز کا لیبل لگانا جنوبی افریقہ کی طرح تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسو سی ایٹڈ پریس' کے مطابق انہوں نے کہا کہ نقل و حرکت پر سخت پابندیوں، لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول کی تعلیم کے خاتمے، اور ملازمتوں پر پابندی سے دوچار کئی افغان خواتین ناامیدی اور مایوسی کے عالم میں اپنی جانیں لے رہی ہیں۔
خواتین کے حقوق کی علمبردار نے کہا کہ ان کے علم میں آنے والے واقعات اس بات کا حتمی اشارہ ہیں کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے لیے حالات اتنے خراب ہیں کہ وہ طالبان کے زیر حکومت زندہ رہنے کی بجائے موت کا انتخاب کر رہی ہیں۔
اے پی کے مطابق ناہید فرید اب پرنسٹن یونیورسٹی میں کے سکول آف پبلک اینڈ انٹرنیشنل افیئرز سے وابستہ ہیں۔ نیوز کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کی پالیسیوں کو صنفی امتیاز کہنے والی پہلی شخصیت نہیں ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں، جب بین الاقوامی برادری اور پالیسی ساز حلقوں میں افغانستان کے لیے اقدامات کا فقدان ہے ، طالبان کے متعلق یہ لیبل دہرانا انتہائی ضروری ہے تاکہ افغانستان کی خواتین، جو اپنے لیے آواز اٹھا نہیں سکتیں، انہیں فراموش نہ کیا جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اگلے ہفتے کے اجلاس کے لیے آنے والے عالمی رہنما جلاوطن افغان خواتین سے ملنے اور ان کی بات سننے کے لیے وقت نکالیں گے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ عالمی رہنما یہ سمجھنا شروع کر دیں گے کہ افغانستان میں "صنفی امتیاز" ہو رہا ہے کیونکہ خواتین کو "استعمال اور غلط استعمال" کیا جارہا ہے۔ طالبان نے خواتین کو معاشرے کے محکوم طبقے تک محدود کر دیا ہے اور ان کے انسانی حقوق چھین لیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ طالبان نے گزشتہ سال امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں عبوری حکومت قائم کرنے کے بعد خواتین پر تعلیم اور مردوں کے ہمراہ کام کرنے پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے طالبان کے کنٹرول میں ملک میں انسانی حقوق کی پامالی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کئی ملکوں نے طالبان پر اقتصادی اور امدادی پابندیاں بھی نافذ کی ہیں۔
اس ہفتے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے افغانستان کی بگڑتی ہوئی اقتصادی صورت حال اور انسانی بحران کو کم کرنے کے لیے ایک خصوصی افغان فنڈ کے قیام کا اعلان کیا ہے ۔ سویٹزرلینڈ میں قائم ہونے والے اس فنڈ میں افغانستان کے منجمند اثاثوں میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر رکھے جارہے ہیں۔ سوئس حکام اور افغانستان پر اقتصادی ماہرین کے زیر نگرانی کام کرنے والے اس فنڈ کے تحت طالبان کو مالی رسائی دیے بغیر افغانستان کے عوام کے لیے مختلف منصوبوں پر رقوم خرچ کی جائیں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ناہید فرید نے نیوز کانفرنس میں طالبان پر الزام لگایا کہ وہ بین الاقوامی برادری سے قانونی حیثیت، فنڈز اور امداد کے مطالبات کرنے کے لیے خواتین کو ’’بارگیننگ چپ‘‘ یعنی سودے بازی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
طالبان کے اس انداز کو "انتہائی خطرناک" قرار د یتے ہوئے انہوں نے عالمی برادری سے کہا کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے مکمل حقوق، طالبان کے ساتھ تمام مذاکرات میں ایک ناقابل تبدیل نقطہ آغاز ہونا چاہیے۔
ناہید فرید نے 57 مسلم ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون کی تنظیم پر زور دیا کہ وہ ایک ا یسا فورم بنا ئے جہاں افغان خواتین طالبان کے ساتھ خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کے مسائل پر براہ راست مذاکرات کر سکیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ دنیا کے ممالک طالبان پر عائد پابندیاں برقرار رکھیں اور اقوام متحدہ بھی تمام 183 طالبان رہنماؤں کو پابندیوں کی بلیک لسٹ میں رکھے۔ مزید یہ کہ اقوام متحدہ میں طالبان کے نمائندوں پر پابندی لگائی جائےاور طالبان سے ملاقات کرنے والے تمام وفود میں خواتین کو شامل کیا جائے۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے کچھ طالبان رہنماوں کے لیے سفری پابندیوں میں استثنیٰ گزشتہ ماہ ختم ہوگیا تھا اور ابھی تک بین الااقوامی برادری اور سلامتی کونسل نے اس پر کوئی فیصلہ نہیں کہا۔ البتہ رپورٹس کے مطابق کچھ ملک طالبان رہنماوں پر سفری پابندیوں میں استثنیٰ میں توسیع کی بات کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان نے کہا ہے کہ ان کے رہنماوں کو سفری پابندیوں میں ملنے والی چھوٹ کو بڑھایا جائے اور بین الاقوامی برادری افغانستان کی بہتری کے لیے ان کے ساتھ تعاون کرے۔ موجودہ صورت حال میں کسی ملک کے رہنما کو طالبان حکام سے ملاقات کرنے کے لیے پہلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1267 کے نام سے جانی والی کمیٹی سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔
واشنگٹن میں امریکہ کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان تھامس ویسٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ طالبان پر سفری پابندیوں پر استثنی اب ختم ہوگیا ہے۔ وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق انہوں نے وضاحت کی کہ اب اگر انہیں طالبان کے کسی نمائندے سے کسی تیسرے ملک میں ملاقات کرنا ہوگی تو اس ملک کو کمیٹی کو مطلع کرنا ہوگا وہ کس طالبان کے ممبر کی ملاقات کی میزبانی کر رہا ہے۔ جس کے بعد کمیٹی ملاقات کی درخواست پر غور کرے گی۔
البتہ ویسٹ نے کہا کہ وہ طالبان کو 'انگیج ' کرنے یعنی ان سے رابطے رکھنے کی پالیسی کے حق میں ہیں کیونکہ یہ سوچنا کہ ان کا وجود ہی نہیں ذمہ دارانہ پالیسی نہیں ہوگی اور اس طرح بہت سے کام جو ہم کرنا چاہتے ہیں نہیں ہو پائیں گے۔
ادھر امریکہ کے سابق سفیر جان بولٹن نے طالبان کے اپنے وعدوں سے پھر جانے پر تنقید کرتے ہوئے طالبان کے رویے کوعالمی سطح پر خطرہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو بتایا کہ ایسا کرنا نہ صرف افغانستان میں جبر ہے ، جو وہ یقینی طور پر کر رہے ہیں، بلکہ اس سے خطے اور عالمی سطح پر بھی خطرات ہیں۔
عالمی امور کے ماہر سابق سفارت کار نے یاد دلایا کہ طالبان نے عہد کیا تھا کہ وہ انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کی تعلیم کا احترام کریں گے۔
’’مجھے نہیں لگتا کہ ان کا کبھی ایسا کرنے کا ارادہ تھا‘‘۔
تاہم بولٹن نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ طالبان اپنے آپ کو 1990 کی دہائی کی سطح پر بحال کر سکیں گے ۔