افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے ایک سال بعد صوبہ پکتیا کے بعض علاقوں میں لڑکیوں کے چندسیکنڈری اسکول دوبارہ کھول دیے گئے ہیں۔
صوبہ پکتیا کے صدر مقام گردیز سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی حبیب اللہ سراب کا کہنا ہے کہ ساتویں سے بارہویں جماعت تک لڑکیوں کے اسکول کھلے ہوئے تقریباً ایک ہفتہ ہوچکا ہے۔ لیکن اس خوف سے کہ کہیں اسکولوں کو دوبارہ بند نہ کردیا جائے، ذرائع ابلاغ پر کوریج نہیں دی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حبیب اللہ سراب کا کہنا تھا کہ گردیز اور سمکنو کے علاقوں میں لڑکیوں نے دوبارہ اسکول جانا شروع کردیا ہے اور وہ اس کے شاہد ہیں۔
پکتیا میں یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب طالبان حکومت کو لڑکیوں کی سیکنڈری تعلیم پر پابندی پر نہ صرف عالمی برادری بلکہ ملک کے اندر بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ مقامی افراد طالبان کے اس اقدام کو افغانستان کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔
اس سے قبل مارچ میں افغانستان میں نئے تعلیمی سال کی مناسبت سے اسکول کھول دیے گئے تھے، مگر چند گھنٹوں بعد ہی سیکنڈری اسکولوں کو دوبارہ بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا، جو اب تک جاری ہے۔
حبیب اللہ سراب نے کہا کہ لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش کی وجہ سے علاقے میں کافی تشویش پائی جاتی تھی، اس سلسلے میں کافی کوششیں ہو رہی تھیں اور بالآخر علاقہ عمائدین اور اساتذہ کی کوششوں سے لڑکیوں کے اسکولز دوبارہ کھل گئے ہیں۔
صوبہ پکتیا کے شعبہ اطلاعات و نشریات کے ایک اہل کار مولوی خلقیار احمد زئی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھیجے گئے ایک آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ''پکتیا میں کئی روز سے لڑکیوں کے لیے چھٹی سے بارہویں جماعت تک کے تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں۔''
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام تعلیمی ادارے علاقے کے عمائدین اور اسکول کی انتظامیہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد کھولے گئے ہیں۔ اس حوالے سے وزارتِ تعلیم یا مقامی طالبان کی جانب سے کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا، البتہ اسکول کھولنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ڈالی گئی ہے۔
خیال رہے کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وی او اے کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ لڑکیوں کے اسکولوں کے حوالے سے کام ہو رہا ہے اور جلد اس پر پالیسی واضح ہوجائے گی۔
مولوی خلقیار احمدزئی کا کہنا تھا کہ پکتیا کے صدر مقام گردیز میں چار جب کہ سمکونو کے علاقے میں لڑکیوں کا ایک اسکول کھولا گیا ہے۔
گل احمد اسدی گردیز میں واقع شنگر لیسی اسکول کے پرنسپل ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں وہ کچھ دنوں سے لڑکیوں کو اسکول جاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، جو کافی خوش آئند ہے۔
پکتیا سے تعلق رکھنے والی ایک ٹیچر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں پہلے ذرائع ابلاغ کے ذریعے خبر ہوئی کہ بعض اسکول کھل گئے ہیں۔ حقائق جاننے کے لیے جب انہوں نے ان اسکولوں میں فون کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی۔
انہوں نے کہا کہ جس اسکول میں وہ پڑھاتی ہیں وہ ابھی تک نہیں کھلا ہے۔ لیکن وہ پرامید ہیں کہ جلد ان کا اسکول بھی کھل جائے گا اور علاقے کی لڑکیاں بھی دوبارہ تعلیم سے فیض یاب ہوسکیں گی۔