میڈرڈ میں موسم سرما کے دھوپ میں کھیل کے میدان میں اپنے بیٹے کو جھولا جھلاتے ہوئے، سابق افغان پراسیکیوٹر عبیدہ شرار اس پر مطمئن ہیں کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد افغانستان سے فرار ہونے کے بعد ، اب انہیں اسپین میں پناہ مل گئی ہے۔تاہم انہوں نےکہاکہ ایک ایسے وقت میں جب ان کی ہم وطن خواتین تکلیف میں ہیں، خوش رہنا انہیں خود غرضی لگتا ہے ۔
شرار، جو اپنے خاندان کے ساتھ میڈرڈ پہنچی ہیں، ان 19 خواتین وکلا میں سے ایک ہیں جنہوں نے طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد ایک سال تک پناہ گزین کا اسٹیٹس حاصل کیے بغیر پاکستان میں رہنے کے بعد اب اسپین میں پناہ حاصل کی ہے۔
انہوں نےکہاکہ ایک ایسے وقت میں جب ان کی ہم وطن خواتین تکلیف میں ہیں انہیں خوش رہنا خود غرضی لگتی ہے ۔
شرار نے کہا،’’اکثر افغان خواتین اور لڑکیاں جو افغانستان میں رہتی ہیں انہیں تعلیم حاصل کرنے، سماجی زندگی گزارنے یا بیوٹی سیلون جانے کا حق نہیں ہے۔میں کیسےخوش رہ سکتی ہوں‘‘۔
Your browser doesn’t support HTML5
2021 میں اسلام کی اپنے نظریے کے مطابق سخت تشریح کو نافذ کرنے والی طالبان حکومت کی آمدکے ساتھ ہی ان کے آبائی ملک میں خواتین کی آزادیوں کو اچانک ختم کر دیا گیا۔ طالبان انتظامیہ نے زیادہ تر خواتین امدادی کارکنوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور گزشتہ سال خواتین اور لڑکیوں کو ہائی سکول اور یونیورسٹی جانے سے روک دیا تھا۔
افغانستان میں رہتے ہوئے شراراور ان کی خواتین ساتھیوں کا کام خطرناک تھا۔ خواتین ججوں اور پراسیکیوٹرز کو دھمکیاں دی گئیں اور انہیں انتقامی حملوں کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ انہوں نے ریپ اور قتل سمیت صنفی جرائم میں ملوث مردوں کے مقدمے کی سماعت کرنا اور سزا سنانے کا کام شروع کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ 32 خواتین ججوں اور پراسیکیوٹرز کے اس گروپ کا حصہ تھیں جنہوں نے پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں افغانستان چھوڑ دیا تھا اور ایک سال تک پاکستان میں پھنسی رہیں تھیں۔
ایک اورسابق وکیل ا ستغاثہ نےجو صنفی تشدد اور بچوں کے خلاف تشدد کے جرائم میں مہارت رکھتی تھیں، اپنا نام صرف ایس ایم بتایا، کہا، ’’میں صوبے میں واحد خاتون پراسیکیوٹر تھی۔مجھے طالبان کے ارکان اور ان مجرموں کی طرف سے دھمکیاں موصول ہوئیں جنہیں میں نے جیل بھیجا تھا‘‘۔
اب وہ اور ان کا خاندان بھی اسپین میں ہے۔ بہت سی خواتین نے کہا ہے کہ انہیں مغربی حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں نےتنہا چھوڑ دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پناہ گزینوں کے لیےقوام متحدہ کے ہائی کمشنر (یو این ایچ سی آر) نے کہا کہ وہ مخصوص معاملات پر تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
یو این ایچ سی آر نے ایک بیان میں کہا، ’’حکومت پاکستان نے نئے آنے والے افغانوں کو بطور پناہ گزین تسلیم کرنے پر اتفاق نہیں کیا ہے۔2021 سے، یو این ایچ سی آر کمزور افغانوں کی مدد کے لیے اقدامات اور طریقہ کار پر پاکستانی حکومت کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ افسوس کہ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی‘‘۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
پاکستان افغانستان سے آنے والے لاکھوں مہاجرین کی پناہ گاہ ہے جو 1979 میں سوویت یونین کے حملے اور اس کے بعد کی خانہ جنگی کے دوران فرار ہو گئے تھے۔ پاکستان کی جانب سے مختلف پروگراموں کے تحت انہیں وطن واپس بھیجنے کے دباؤ کے باوجود ان میں سے بیشتر ابھی تک واپس اپنے ملک نہیں آئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان نے کہا ہے کہ کوئی بھی افغان جو 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملک سے فرار ہوا ہے وطن واپسی کونسل کے ذریعے بحفاظت واپس آ سکتا ہے۔
طالبان انتظامیہ کے نائب ترجمان بلال کریمی نے کہا کہ افغانستان تمام افغانوں کا مشترکہ گھر ہے۔ ’’وہ بغیر کسی خطرے کے یہاں رہ سکتے ہیں۔‘‘
(یہ رپورٹ خبر رساں ادارے رائٹرز کی معلومات پر مبنی ہے)