جولائی میں امریکہ افغانستان سے اپنے کچھ فوجی دستے واپس بلانا شروع کرے گا۔ اپنے اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیےامریکی انتظامیہ ایک طرف افغانستان پریہ زور دے رہی ہے کہ اپنی سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی تیاری کرے تو دوسری طرف پاکستان پر دباؤ ڈالا جارہاہے کہ ہے کہ وہ افغان سرحد کےساتھ موجود دہشت گرد اور عسکریت پسند گروہوں کے خلاف اقدامات کرے ۔ ماہرین کا کہناہے کہ پاک افغان تعلقات جو فی الحال زیادہ بہتر نہیں ہیں، خطے کے مستقبل کے منظر نامے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
پچھلے کچھ برسوں سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔افغانستان میں جاری جنگ اور 2014 ء تک امریکہ کےوہاں سے ممکنہ انخلا ءکے باعث دونوں ممالک میں ٕبعض معاملات پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے افغان حکام سے ملاقات کی تھی ۔
مگر دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی معاملات پر اختلافات اب بھی باقی ہیں۔ افغان دفتر خارجہ کے ایک عہدیدار داؤود مرادیان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت نے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے چین سے ثالث کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی ہم سب کی دشمن ہے جس سے ہم سب کو خطرہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کچھ لوگ دہشت گردوں میں اچھے اور برے کی تفریق کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر قسم کی دہشت گردی کومسترد کرنے کے لئے چین پاکستان پر زور ڈالے۔ اس کے بدلے میں ہم پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے لئے تیار ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان سے فوجی دستے واپس بلانے کے لئے حالات سازگار بنانے کے لئے خود امریکہ بھی چاہے گا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوں مگر سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے۔واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک کارنیگی انڈومنٹ فار پیس سے منسلک تجزیہ کار ایشلی ٹیلس کہتے ہیں کہ امریکہ ایسے حالات پیدا کر سکتا ہے جس سے دونوں کے اختلافات میں کمی واقع ہو۔
http://www.youtube.com/embed/7JPcEwHIw7Y
ان کا کہناہے کہ میرا خیا ل نہیں کہ امریکہ دونوں میں اختلافات ختم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے۔مگر امریکہ ایسے حالات پیدا کر سکتا ہے جس میں پاکستان اور افغانستان اپنے اختلافات کو قبول کریں اور یہ تسلیم کریں کہ ایک دوسرے کی کامیابی سے ہی ان دونوں کا قومی مفادجڑا ہوا ہے۔دونوں فریقین میں سے کسی کو بھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ایک کے فائدے میں دوسرے کا تقصان ہے۔ جب ایک فریق دوسرے کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھے گا تب ہی حالات بہتر ہونا ممکن ہوگا۔
ماہرین یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ آیا دس سال کی جنگ کے بعد کیا افغانستان پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہے یا نہیں۔امریکی حکام بار بار اس خواہش کااظہار کر چکے ہیں کہ افغان حکومت اپنے معاملات خودسنبھالے اور افغان فوج اورادارے سیکیورٹی کے معاملات جلد سنبھالنے کے قابل ہو جائیں ۔ کچھ ماہرین جیسے ڈاکٹر اسٹیفن بائیڈل کا خیال ہے کہ ابھی تک افغان حکومت اس قابل نہیں ہوئی کہ اپنے طور پر تما م معاملات سنبھال سکے اور اگر امریکہ فوری طور پر افواج نکالتا ہے تو اس سے خطے پر بہت منفی اثرات مرتب ہونگے۔
وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اگر امریکہ افغانستان سے تمام افواج نکالتا ہے تو اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے اورافغانستان اور پاکستان میں بہت سے لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں۔ امریکہ قابل قبول مقاصد کے حصول کے لئے زیادہ عرصے تک وہاں رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے اگر وہ طے کر لے کہ قابل قبول مقاصد کیا ہیں۔میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ امریکہ کی اندرونی سیاست افواج کو افغانستان میں زیادہ عرصے تک رکھنے کے حق میں ہے حالانکہ امریکہ اور خطے میں پایا جانے والا تاثراس کے برعکس ہیں ۔
ایبٹ آباد میں القاعدہ کے بانی رہنما کی ہلاکت کے بعد امریکی کانگرس کے کئی اراکین کا کہنا ہے کہ اب زیادہ تر امریکی دستوں کو جلد واپس بلا لیا جانا چاہیے۔ افغانستان سے کچھ امریکی دستوں کا انخلا ایک ماہ بعد شروع ہوجائے گا ۔ پاکستان اور افغانستان آئیندہ سالوں میں مکمل انخلا کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اپنے آپ کو تیارکر رہے ہیں۔