افغانستان میں امریکہ کے زیر انتظام بگرام ائربیس پر قرآنی نسخوں کو جلانے کے واقعہ کے خلاف بدھ کو دوسرے روز بھی کابل سمیت ملک کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی فائرنگ میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوگئے۔
ایک روز قبل امریکہ اور نیٹو نےاس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس پر افغان عوام سے معذرت کی تھی لیکن بظاہر یہ معافی مشتعل افراد کو جلسے جلسوں سے نہیں روک سکی ہے۔
پروان صوبے میں، جہاں بگرام ائربیس واقع ہے، مشتعل مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک جبکہ ایک درجن سے زائد زخمی ہوگئے۔ حکام کا کہنا ہے کہ مظاہرین سرکاری عمارتوں پر حملے کی کوشش کررہے تھے۔
لوگر صوبے میں بھی احتجاج میں شامل ایک شخص پولیس کی گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا جبکہ کابل کے مظاہروں میں زخمی ہونے والے ایک شخص نے اسپتال میں دم توڑ دیا۔
دارالحکومت میں مظاہرین اور پولیس میں ہونے والے تصادم میں 21 افراد زخمی ہوئے جن میں 11 پولیس اہلکار ہیں۔ پاکستانی سرحد سے ملحق مشرقی افغان شہر جلال آباد میں بھی قرآن کی بے حرمتی کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔
اُدھرنائب امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نےافغان دارالحکومت میں صدر حامد کرزئی سے ملاقات کر کے اُنھیں قرآن کی ’’غیر دانستہ‘‘ طور پر کی گئی بے حرمتی کے واقعہ کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور ایک بار پھراس پر افغانستان کی حکومت اور عوام سے معافی مانگی۔
کابل میں صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں نیٹو کے کمانڈر جنرل جان ایلن بھی نائب امریکی وزیر دفاع کے ہمراہ موجود تھے۔
’’صدر کرزئی نے نیٹو کے کمانڈر سے اس واقعہ کی تحقیقات کرنے والے وفد سے مکمل تعاون کرنے کو کہا اور یہ بھی کہا کہ مستقبل میں ایسے واقعات دوبارہ نہیں ہونے چاہیئں۔‘‘
ملاقات میں جن دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ان میں سلامتی کی صورت حال، افغان فورسز کی تربیت اور انھیں مسلح کرنے، شکاگو میں ہونے والی کانفرنس اور بگرام کی جیل کا انتظام افغانستان کو منتقل کرنا شامل تھا۔
’’اس جیل کا انتظام افغان حکومت کو منتقل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صدر کرزئی نے کہا کہ جس قدر جلد آپ یہ انتقال کردیتے ہیں، مسائل اور بدقسمت واقعات سے آپ کا پالا بھی اُسی قدر کم پڑے گا۔ ‘‘