افغانستان کے صوبے ہرات میں ملبوسات فروخت کرنے والے دکانداروں نے طالبان کی جانب سے نئی ہدایات جاری ہونے کے بعد دکانوں کے ملبوسات پہنے تشہیری پُتلوں/مجسموں سے سر علیحدہ کرنے شروع کر دیے ہیںں
ہرات میں مقامی کاروباری راہنما عبیداللہ یاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ 20 فیصد دکاندار سزاؤں کے خوف سے طالبان کے ان نئے احکامات پر فوری طور عمل کر بھی چکے ہیں۔
طالبان کی وزارت 'امر بالمعروف و نہی عن المنکر' نے، جس کا کام طالبان کے نظریے سے اسلام کی تشریح ہے، گزشتہ ہفتے یہ احکامات جاری کیے تھے کہ چہروں والے یہ پتلے جن پر ملبوسات ٹنگے ہوتے ہیں اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی ہیں۔ ان پُتلوں کے سر جدا نہ کرنے کی صورت میں دکانداروں کو سزا بھگتنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
SEE ALSO: والدین اپنے بچے فروخت کرنے لگے، افغانستان میں ایسا کیوں ہو رہا ہے؟عبیداللہ یاری نے بتایا کہ ابتدا میں ان احکامات پر دکانداروں نے اعتراض کیا کیوں کہ ڈسپلے پر رکھے جانے والے ایسے پُتلے دیگر اسلامی ممالک میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ تاہم بعد میں سزا کے ڈر سے انہوں نے ان پُتلوں کے سرعلیحدہ کرنے شروع کر دیے۔
'امر بالمعروف و نہی عن المنکر' وزارت کے مقامی سربراہ عزیز رحمان نے میڈیا کو بتایا کہ دوکانوں میں استادہ یہ مجسمے بت ہیں اور اسلام میں بت پرستی کی کوئی گنجائش نہیں اس لئے انہوں نے ان پُتلوں کے سر تن سے جدا کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
دوسری جانب کابل میں طالبان حکام نے مبینہ طور پر پبلک ٹیکسیوں کی نگرانی بھی سخت کر دی ہے۔ نئے احکامات کے تحت ٹیکسی ڈرائیورز بے حجاب خواتین کو سوار نہیں کر سکتے اور 72 کلومیٹر سے دور جانے کے لئے خواتین کے ساتھ محرم کا ہونا بھی لازمی ہے۔ ٹیکسی ڈرائیورز کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ داڑھی رکھیں، نماز کے وقت ٹیکسی روکیں اور سواری میں گانے نہ چلائیں۔
اطلاعات کے مطابق وزارت کے احکامات کے تحت خواتین کے گاڑی چلانے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ خواتین نیوز اینکرز کو بغیر حجاب خبریں پڑھنے کی اجازت نہیں جبکہ ٹی وی چینلز پر ایسے تمام ڈراموں کو بند کر دیا گیا ہے جن میں خواتین اداکاروں نے کام کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سرکاری ٹیلیویژن کو انٹرویو میں وزارت 'امر بالمعروف و نہی عن المنکر' کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان احکامات پر کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ "افغانستان ایک مسلم ملک ہے اور یہاں کوئی اسلامی قوانین کے خلاف نہیں"۔
تاہم، ان کے مطابق، اسلامی تعلیمات کے اطلاق سے جڑے تمام اداروں کو یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ شہریوں سے بدسلوکی نہ کریں اور نرمی سے پیش آتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے بارے میں آگاہی دیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ تمام افغان لڑکیاں پھر سے اسکولز جا سکیں گی، اس کی تیاری کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے صوبوں کے اسکولوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔
دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ طالبان ایک بار پھر سے اپنی استبدادی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔
سابق افغان اہلکار تورک آفندی نے سوشل میڈیا پر رائے دی کہ موجودہ صورتحال متوقع تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ "کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس نئی وزارت کے تمام اہلکار ملک سے غربت کے خاتمے، مجبوروں تک امداد پہنچانے اور سڑکوں سے نادار اور بھکاریوں کی بھوک مٹانے اور فوری طور پر ان کے لئے ملازمتوں کے بندوبست کے لیے کام کر رہے ہوتے"۔