افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین مختلف مواقع پر احتجاج کر رہی ہیں۔ منگل کو بھی ایک ایسا ہی مظاہرہ دارالحکومت کابل میں کیا گیا جہاں مسلح طالبان نے مبینہ طور پر ہوائی فائرنگ کی۔
کابل میں ہونے والے اس احتجاج میں لگ بھگ 30 خواتین شریک تھیں۔ مظاہرین نے طالبان پر خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور سابق فوجیوں کی ہلاکت کے الزامات عائد کیے۔
البتہ طالبان کی جانب سے ایسے تمام الزامات کو مکمل طور پر مسترد کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ویڈیوز میں خواتین کو پلے کارڈ اٹھائے دیکھا جا سکتا ہے۔ خواتین طالبان سے انصاف کے حصول اور سابق فوجیوں کی ہلاکت روکنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ ملک کے مختلف حصوں سے طالبان کے ہاتھوں سابق فوجیوں کی ہلاکتوں کی خبریں آئے روز موصول ہو رہی ہیں جسے فوری روکنے کی ضرورت ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد عام معافی کا اعلان کیا تھا اور وہ اب تک اس اعلان پر قائم ہیں۔
کابل میں مقیم خاتون اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سودابہ کبیری کہتی ہیں کہ طالبان اقتدار میں آنے کے بعد خواتین سے متعلق پے درپے حکم نامے جاری کر رہے ہیں۔
ان کے بقول ان حکم ناموں کا مقصد خواتین کا تشخص اور آزادی سلب کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سودابہ کبیری نے بتایا کہ منگل کو ہونے والا احتجاج اسی کڑی کا ایک حصہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج میں صوبۂ پنجشیر میں لوگوں کی ہلاکتوں، انسانی حقوق کے کارکنوں سے طالبان کی بدسلوکی کے خلاف آواز بلند کی گئی۔
خیال رہے کہ اگست میں افغانستان پر قبضے کے بعد سے طالبان نے خواتین کے لیے مختلف ضابطے وضع کیے ہیں جس کے تحت مخلوط تعلیم پر پابندی، سفر کے دوران موسیقی سننے سے گریز، ٹیلی وژن اسکرین پر حجاب کا استعمال اور ستر کلومیٹر سے زائد سفر کے لیے محرم کا ساتھ ضروری قرار دیا گیا ہے۔
البتہ سودابہ کبیری کہتی ہیں افغان خواتین اپنے حقوق سے باخبر ہیں۔ لہٰذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان کے لیے نئے ضابطے مرتب کیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام نے گزشتہ دو دہائیوں میں ترقی کی نئی منزلیں طے کی ہیں۔ اس لیے اس قسم کی نئی ترامیم افغان خواتین کے لیے ناقابلِ قبول ہیں جن کا مقصد خواتین کو معاشرے میں پیچھے دھکیلنا ہو۔
سودابہ کبیری کے مطابق وہ ان تمام اقدامات کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان سرکاری ٹیلی ویژن 'آر ٹی اے' پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ خواتین کے تعلیم و روزگار کے حصول کے خلاف نہیں ہیں۔
ان کے بقول ملک کے بیشتر صوبوں میں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے کھول دیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت اور چند دیگر ایسے ادارے ہیں جہاں خواتین بغیر کسی پابندی کے کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے محکمے ہیں جہاں خواتین نے کام شروع نہیں کیا ہے۔ البتہ ان کی حکومت حالات سازگار بنانے میں مصروف ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے امید ظاہر کی کہ اس سلسلے میں جو انتظامی مسائل درپیش ہیں انہیں جلد حل کر لیا جائے گا۔
افغانستان کے سابق فوجیوں کو مارے جانے کے الزام پر افغان طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد عام معافی کا اعلان کیا تھا اور وہ اس اعلان پر قائم ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ملک میں لوگوں کی ذاتی دشمنی پہلی بھی تھی اور اب بھی ہے۔ ملک میں اسلحہ عام ہے اس لیے ایسی کارروائیوں کا الزام طالبان پر عائد کرنا درست نہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ طالبان اس قسم کی کسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں۔
مظاہرے میں شریک ایک اور خاتون عارفہ فاطمی کہتی ہیں کہ ظلم کے خلاف خاموشی بھی ایک جرم ہے جس کا وہ ارتکاب نہیں کرنا چاہتیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کی جانب سے خواتین کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اور فیصلوں کے خلاف آواز بلند کرتی رہیں گی۔
عارفہ فاطمی کے مطابق جب احتجاج میں شامل مظاہرین 'امر بالمعروف و نہی عن المنکر' کی وزارت کے دفتر کے پاس پہنچے تو وہاں پر موجود مسلح طالبان نے دھمکانے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔
ان کے بقول مسلح افراد اس وقت تک شرکا کا پیچھا کرتے رہے جب تک وہ منتشر نہیں ہو گئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں خواتین کی آزادی کے خلاف روز بروز گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ اگر اس طرح کے اقدامات کو عالمی سطح پر اجاگر نہ کیا گیا تو افغانستان میں خواتین کا مستقبل مزید تاریک ہو جائے گا۔