افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ ملک کے سات علاقوں میں امن وامان برقرار رکھنے کی ذمہ داریاں جلد افغان فوج اور پولیس کو منتقل کر دی جائیں گی اور اس عمل کا مقصد 2014ء تک تمام ایسی ذمہ داریوں کی قیادت مقامی فورسز کے حوالے کرنا ہے۔
منگل کو کابل میں افغانستان نیشنل ملٹری اکیڈیمی میں سینکڑوں اہم شخصیات، پولیس اور افغان فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ جولائی میں صوبائی دارالحکومتوں، لشکر گاہ (صوبہ ہلمند)، ہرات (صوبہ ہرات)، مزارِشریف (صوبہ بلخ) اور مہترلام (صوبہ لغمان) میں نیٹوکی زیر قیادت غیر ملکی افواج سے سلامتی کی ذمہ داریاں افغان پولیس اور فوج کو سونپ دی جائیں گی۔ ”افغان قوم نہیں چاہتی کہ ملک کے دفاع کا نظام مزید عرصے کے لیے دوسروں کے ہاتھ میں رہے۔ “
افغان صدر نے بتایا کہ منصوبے کے تحت ابتدائی مرحلے میں بامیان اور پنج شیر صوبوں میں امن وامان قائم رکھنے کا تمام تر نظام بھی مقامی سکیورٹی فورسز کو منتقل کردیا جائے گا۔ اس کے علاوہ سروبی ضلع کو چھوڑکر کابل صوبے کا تمام کنٹرول بھی افغان پولیس اور فوج کے حوالے کردیا جائے گا۔
سروبی پاکستان کی سرحد کی طرف جانے والے راستے پر واقع ہے جبکہ یہ افغانستان کے اُن حصوں کے قریب ہے جو طالبان عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی وجہ سے خطرنا ک سمجھے جاتے ہیں۔
صدر کرزئی نے کہا کہ سلامتی کی ذمہ داریوں کی منتقلی کے عمل کو دارالحکومتوں سے صوبوں تک وسعت دی جائے گی۔ ” اپنے جھنڈے کوعزت اور فخر سے بلند کرنے کی ذمہ داری ہماری اپنی ہے۔“ اُنھوں نے اس موقع پرایک بار پھر طالبان عسکریت پسندوں سے کہا کہ وہ افغانستان میں امن کی کوششوں میں شامل ہو جائیں۔
افغان صدر نے کہا کہ اتحادی افواج کی رات کے وقت کارروائیوں ، شہری ہلاکتوں اور غیر ذمہ دارانہ انداز میں لوگوں کو گرفتار کرنے سے شورش پسندی کو تقویت ملی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ شہری ہلاکتوں کا سلسلہ اب ہر حال میں بند ہو جانا چاہیے۔
حالیہ فضائی کارروائیوں میں متعدد افغان شہریوں کی ہلاکتوں پر صدر کرزئی اور امریکہ کی زیر قیادت فوجی اتحاد کے تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔افغان صدر نے کابل میں اپنے خطاب میں ایک بار پھر اتحادی افواج پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے دیہاتوں میں جنگ لڑنے کی بجائے اس کا رُخ انتہا پسندوں کی ”جڑوں اور محفوظ پناہ گاہوں“ کی طرف کریں۔
درپردہ افغان صدر کا اشارہ ہمسایہ ملک پاکستان کی طرف تھا جہاں سرحدی علاقوں میں موجود عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں سے مبینہ طور پر سرحد پار افغانستان میں اتحادی اور افغان اہداف پر حملے کیے جاتے ہیں۔