اسامہ بن لادن کے بعد افغان جنگ کا مستقبل

  • ندیم یعقوب

اسامہ بن لادن کے بعد افغان جنگ کا مستقبل

اوسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں افغان جنگ کے جواز پر بھی نئے سوالات اٹھائے جا رہےہیں ۔ واشنگٹن میں بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر اوباما افغانستان سے موسم گرما میں امریکی افواج کے ابتدائی انخلاء کے بعد کی حکمت عملی وضع کریں ۔ جب کہ کئی ماہرین وہاں ابھی مزید فوجی دستے بھیجنے پر زور دے رہے ہیں۔

جیسے جیسے اوسامہ بن لادن کی گزشتہ پانچ سال سے پاکستان میں موجودگی کے شواہد سامنے آرہے ہیں ، واشنگٹن میں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا امریکہ کو اب افغانستان سے زیادہ پاکستان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اگر ایسا کرنا پڑے تو امریکی وسائل کا بڑا حصہ افغانستان کے بجائے پاکستان کی طرف موڑنے کی ضرور ت تو نہیں ہے ؟

سینٹر فار امریکن پراگریس کے اسکالر برائین کٹولس کہتے ہیں کہ ہم کسی بھی طرح پاکستان ٕمیں اپنی فوجی موجودگی نہیں رکھیں گے مگر ہمیں پاکستانی عوام کے لئے امداد اور حمایت میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہوگا۔اس وقت افغانستان میں ہماری ضرورت سے زیادہ موجودگی پاکستان پر توجہ میں حائل ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کے لئے امداد میں اضافہ کرنا ہوگا جو جغرافیائی لحاظ سے بڑا ملک ہے اور جس کی آبادی افغانستان سے چھ گنا زیادہ ہے اور جس کے پاس جوہری ہتھیاروں کی نامعلوم تعداد ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں اپنا مشن محدود کرنا شروع کرنا ہوگا ۔

کٹولس کہتے ہیں کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آج افغانستان میں کامیابی کا کیا مطلب ہے ؟ اگر افغانستان میں القاعدہ کے ایک سو عسکریت پسند ہوں اور ہمیں عرب خطے یا یمن میں القاعدہ سے زیادہ خطرہ ہو تو پھر کیا کرنا ہوگا ؟

افغانستان میں امریکی جنگ کا مقصد اسے اوسامہ بن لادن اور القاعدہ سے پاک کرنا تھا۔ہزاروں اتحادی فوجیوں کے علاوہ افغانستان میں اب امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی ہے اوراس سال جنگ پر آنے والی لاگت ایک سو ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ مگر ایک سال پہلے صدر اوباما نے کہا تھا کہ انہیں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں دلچسپی نہیں۔

اس لئے جولائی سے کچھ امریکی دستے افغانستان سے واپس بلا نے شروع کر دیئے جائیں گے۔مگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اوسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد کافی کچھ بدل گیا ہے۔ایک افغانستان سٹڈی گروپ کے بانی سٹیو کلیمنز کہتے ہیں کہ امریکہ کو زیادہ فوجی دستے واپس بلانے چاہیں کیونکہ ان کی موجودگی سے زیادہ گڑبڑ والے علاقوں میں القاعدہ کو نئی بھرتیاں کرنے میں مدد ملتی ہے ۔

ان کا کہناہے کہ تو اگر آپ افغانستان کے ایسے علاقوں میں جاتے ہیں جو قدرے مستحکم ہیں اور جہاں آپ ایسا نظام حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو دوسرے علاقوں کے لئے کشش کا باعث ہو تو یہ بہت اچھا ہوگا کیونکہ پھر لوگ طالبان سے اسی طرح کے نظام کے مطالبات کریں گے۔

سٹیو جولائی میں 30 ہزارامریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے حق میں ہیں ۔ جب کہ سینٹر فار امریکن پراگریس کے برائین کٹولس امریکی فوج کے افغانستان سے جلد از جلد انخلا ءکے حق میں ہیں۔

لیکن بعض ماہرین جیسے قدامت پسند تھنک ٹینک ہیرٹیج فاؤنڈیشن کے جیمز کارفانواس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ بالکل غلط وقت ہوگا فوجی نکالنے کا۔ آپ سوچیں آپ ایک میراتھن میں بھاگ رہے ہیں اور جیت رہے ہیں تو کیا آپ رک کر باقی سب کے ساتھ ملنے کا انتظار کریں گے۔

جولائی میں افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا عمل کتنے بڑے پیمانے پر شروع ہوگا ، اس کا اثر اگلے سال 2012ء میں صدر اوباما کی دوسری مدت کے لئے صدارتی مہم پر بھی پڑے گا ، لیکن واشنگٹن میں کئی ماہرین کے مطابق امریکہ کو افغانستان میں اپنا مشن محدودکرنے پر غور شروع کر دینا چاہئے ۔