طالبان حکام نے منگل کے روز اقوام متحدہ کے ان الزامات کی مذمت کی ہے کہ وہ افغانستان میں خواتین کے کام کرنے کے حق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزارت محنت اور سماجی امور کے چیف آف سٹاف شرف الدین شراف نے کہا کہ بہت سی خواتین کو کام پر حاضر نہ ہونے کے باوجود تنخواہ دی جا رہی ہے کیونکہ دفاتر کو اصناف کے درمیان مناسب علیحدگی کا انتظام رکھنے کے مقصد سے قائم نہیں کیا گیا تھا۔
شرف الدین شرف نےکہا کہ " اسلامی نظام میں ایک دفتر میں مل کر کام کرنا ممکن نہیں ہے۔"
اس سے ایک روز پہلے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ایک ماہر نے کہا تھاکہ اگست میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے خواتین کے حقوق میں غیر معمولی تنزلی آئی ہے۔
شرف الدین نے کام کرنے والی خواتین کی تعداد کے بارے میں کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کیے۔ تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ سول سروس سے "ایک بھی خاتون ملازم کو برطرف نہیں کیا گیا"۔
دوسری طرف افغانستان میں خواتین کے ملازمتوں سے محروم ہونے اور کام کرنے کے حق کے مطالبے پر کئی مظاہرے ہوئے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق طالبان نے کچھ مظاہروں کو سختی سے کچل دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ افغانستان کے لوگ انسانی حقوق کے ایسے بحران میں پھنسے ہوئے ہیں جس کےحل میں دنیا بے بس دکھائی دیتی ہے۔
تنازعات کے شکار ملک میں انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو پیش کی جانے والی اپنی پہلی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان کے حالات پچھلے ایک سال کے دوران خراب ہوئے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس رپورٹ کو تعصب پر مبنی قرار دیا ہے
بینیٹ کی رپورٹ کہتی ہے کہ افغانستان میں طالبان تیزی سے آمرانہ نظام سامنے لا رہے ہیں، آزادی اظہار پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور لوگوں کو ان کے شہری اور سیاسی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیاہے کہ تمام افغان مشکل وقت سے گزر رہے ہیں جبکہ خواتین اور لڑکیوں کو جو حقوق پہلے حاصل تھے ان کو بھی واپس لے لیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مصنف کہتے ہیں: " جب سے طالبان نے ملک پر قبضہ کیا ہے میں خواتین اور لڑکیوں کے شہری، سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کی تنزلی کے بارے میں بہت فکر مند ہوں۔ "
وہ کہتے ہیں کہ ساری دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں خواتین اور لڑکیاں اتنی تیزی سے اپنے بنیادی انسانی حقوق سے اپنی صنف کی وجہ سے محروم ہو رہی ہوں۔