افغانستان کے قومی سلامتی کے سربراہ نے منگل کے روز کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے علاقوں پر تیزی سے قبضے کی وجہ افغانستان سے امریکی قیادت والی غیر ملکی فوجوں کا انخلا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
صدر جو بائیڈن نے افغانستان میں تقریباً 20 سال پر محیط جنگ ختم کر کے رواں سال 11 ستمبر تک اپنے فوجیوں کے انخلاٗ کا اعلان کر رکھا ہے، جب کہ نیٹو اتحادی ممالک کی فورسز بھی انخلا کے اس منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔
افغانستان سے انخلا کا سلسلہ یکم مئی کو شروع ہوا تھا اور توقع کی جا رہی ہے کہ اگست کے آخر تک فوجی انخلا مکمل ہو جائے گا۔
اسلام آباد سے وی او اے کے نمائندے ایاز گل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ غیر ملکی فورسز کی واپسی شروع ہونے کے بعد سے افغانستان کے 400 سے زیادہ اضلاع کے تقریباً ایک تہائی پر طالبان قابض ہو چکے ہیں، کیونکہ سرکاری فورسز اور حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والی ملیشیاز کو اب امریکہ کی فضائی مدد حاصل نہیں رہی۔
افغانستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر حمد اللہ محب نے کابل میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہمیں کچھ مسائل کا سامنا ہے اور افغان ایئر فورس پر اضافی دباؤ پڑ گیا ہے۔ تاہم، حکومت ان مسائل پر قابو پا لے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی فوجوں کی واپسی شروع ہونے کے بعد وسائل کی قلت اور خاص طور پر افغان ایئر فورس سے منسلک مسائل کی وجہ سے حکام ان دور افتادہ فوجی چوکیوں پر رسد نہیں پہنچا سکے، جن کی انہیں اشد ضرورت تھی۔ اس کی وجہ سے کئی علاقوں پر دباؤ آیا اور ان پر طالبان قابض ہو گئے، جس سے لوگوں کی پریشانی بڑھی۔
افغان حکام کے مطابق، جمعے کے روز امریکہ کے اس اعلان نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا کہ انہوں نے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا اڈا راتوں رات خالی کر دیا تھا۔ اس اعلان نے غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر دی۔
امریکی فوج کے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے بگرام کا فوجی اڈا افغان فورسز کے ساتھ مکمل معلومات کے تبادلے کے بعد خالی کیا۔
دوسری طرف حمد اللہ محب نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے ان خبروں کی تردید کی کہ افغانستان کی سرکاری فورسز حکومت کو چھوڑ کر طالبان کی صفوں میں شامل ہو رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے گولا بارود اور رسد ختم ہونے کی وجہ سے اپنی چوکیاں چھوڑ دی ہوں۔ لیکن کوئی بھی منحرف ہو کر طالبان میں شامل نہیں ہوا۔
بڑے پیمانے پر اضلاع اور علاقے طالبان کے قبضے میں جانے کے باوجود افغانستان کے سلامتی کے مشیر کو یقین ہے کہ ان کی حکومت کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور میدان جنگ میں ہونے والے نقصانات عارضی نوعیت کے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جنگ ہے جس میں دباؤ ہوتا ہے۔ بعض دفعہ حالات آپ کے حق میں ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
محب نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ حالیہ دنوں میں جو فوجی طالبان کے حملوں کا ہدف بننے کے بعد سرحد عبور کر کے تاجکستان چلے گئے تھے، انہیں واپس لایا جا رہا ہے اور وہ دوبارہ افغان فوج میں شامل ہو رہے ہیں۔
ہمسایہ ملک تاجکستان نے تصدیق کی ہے کہ حالیہ دو ہفتوں کے دوران جنگ سے متاثرہ افغان صوبے بدخشاں سے تقریباً 1600 افغان فوجیوں نے سرحد عبور کرکے پناہ لی ہے، جس کے بعد پیر کے روز تاجک صدر ایمامالی رحمان نے فوجیوں کی آمد روکنے کے لیے اپنی 20 ہزار فوج سرحد پر تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔
پہاڑوں میں گھرے افغان صوبے بدخشاں کی سرحدیں چین اور پاکستان کے ساتھ بھی ملتی ہیں۔ منگل کے روز طالبان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے چین کی سرحد کے ساتھ واقع ضلع واخان پر بھی قبضہ کر لیا ہے جس کے بعد بدخشان کے تمام 28 اضلاع پر طالبان کا کنٹرول ہو گیا ہے۔
SEE ALSO: طالبان کی پیش قدمی اور تیزی سے بدلتی زمینی صورتِ حال، افغانستان میں ہو کیا رہا ہے؟منگل کے روز افغان نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر حمد اللہ محب نے کہا کہ کابل تنازعات کے حل کے لیے افغان عوام اور بین الاقوامی برادری کی خواہشات کے مطابق طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن طالبان انکار کر رہے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ طالبان امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں لیکن دوسرا فریق راضی نہیں ہے۔
واشنگٹن کا کہنا ہے کہ امریکہ افغان سیکیورٹی فورسز کی معاشی اور مالی مدد جاری رکھے گا۔ کابل میں ان کا سفارت خانہ کھلا رہے گا اور اس کی حفاظت کے لیے معقول تعداد میں امریکی فوجی تعینات کیے جائیں گے۔
دوسری جانب پاکستان نے افغانستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بڑی تعداد میں افغان پناہ گزین سرحد عبور کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی سے 30 لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین موجود ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ افغان سرحد پر سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے اور کسی کو بھی سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن اگر افغانستان میں حالات زیادہ خراب ہوئے تو سرحد کے ساتھ پناہ گاہیں تعمیر کی جائیں گی اور پناہ گزینوں کی سخت نگرانی کی جائے گی، تاکہ انہیں ملک کے اندرونی علاقوں میں جانے سے روکا جا سکے۔