افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور طالبان کی جانب سے کئی اضلاع پر قبضے اور مزید علاقوں کی جانب پیش قدمی کے باعث زمینی صورتِ حال میں ہر روز نئی تبدیلی آ رہی ہے۔
گزشتہ ماہ کے دوران طالبان نے ملک کے شمال میں 100 سے زائد اضلاع کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق شمال مشرقی صوبوں بدخشاں، تخار، فریاب، پکتیا اور قندوز میں طالبان کی پیش قدمی کے دوران افغان فورسز نے زیادہ تر علاقوں میں بغیر مزاحمت کیے ہتھیار ڈال کر علاقے خالی کر دیے ہیں۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ طالبان نے 153 اضلاع کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے جس میں سے لگ بھگ 100 اضلاع ملک کے شمال میں ہیں۔
طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ قندھار کے جنوب میں واقع اہم اور اپنے سابق گڑھ ضلع پنجوائی کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔
افغان حکام طالبان کے دعووں کی نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے بقول کئی اضلاع طالبان کے قبضے سے واگزار کرا لیے گئے ہیں جب کہ طالبان کو بھاری جانی نقصان بھی پہنچایا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کی شمالی افغانستان کی جانب پیش قدمی سے افغان حکومت خاصی پریشان ہے۔
افغان امور کے ماہر اور شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق، عبدالسید کا کہنا ہے کہ افغانستان کے شمالی علاقوں میں طالبان کے لیے کبھی حمایت نہیں رہی ہے۔
اُن کے بقول نائن الیون سے قبل ان علاقوں میں طالبان کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ طالبان نے وقت کے ساتھ اپنی حکمت عملی بھی بدلی ہے۔ پہلے وہ تمام کارروائیاں اپنے پشتون کمانڈروں کے ذریعے ہی کراتے تھے۔ لیکن اب طالبان نے نہ صرف مقامی غیر پشتون افراد کو اپنی صفوں میں شامل کیا ہے بلکہ ان میں سے بعض اہم عسکری پوزیشن پر بھی تعینات ہو چکے ہیں۔
تاجک النسل طالبان کمانڈر
عبدالسید کے مطابق شمالی علاقوں میں طالبان کی کارروائیوں کی قیادت کرنے والے قاری فصیح الدین ایک تاجک النسل افغان ہیں۔ ان کا تعلق صوبہ بدخشاں سے ہے اور وہ طالبان کے ملٹری کمیشن کے سربراہ سراج الدین حقانی کے معاون کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
عبدالسید کا کہنا ہے کہ طالبان اس وجہ سے پیش قدمی کر رہے ہیں کیوں کہ افغان فوجیوں اور قیادت کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے.
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں کئی اعلٰی عہدوں پر تعینات افسران دہری شہریت کے حامل ہیں۔ لہذٰا عوام یہ سمجھتے ہیں کہ مشکل پڑنے پر یہ ملک سے جا سکتے ہیں۔
عبدالسید کا مزید کہنا تھا کہ 90 کی دہائی میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد کمیونسٹ نظریات کے حامل سابق صدر ڈاکٹر نجیب کے حامیوں کے ساتھ جنگجوؤں نے نہایت بہیمانہ سلوک کیا تھا۔ البتہ طالبان نے ایسے تمام افراد کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے جو ہتھیار ڈال دیں گے اور وہ ہتھیار ڈالنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی جاری کر رہے ہیں۔
اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ بیشتر افغان نوجوان بغیر لڑے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔
دوسری جانب مقامی افراد کا کہنا ہے طالبان کی کارروائیوں کی وجہ سے افغانستان میں روزمرہ زندگی کے ساتھ ساتھ کاروبار پر بھی منفی اثرات پڑے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مزار شریف کے مقامی صحافی جاوید واک نے بتایا کہ بدخشان، تخار، قندوز، فریاب اور جوزجان کا شمار ایسے صوبوں میں ہوتا ہے جہاں طالبان نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران زیادہ تر اضلاع کا کنٹرول حاصل کیا ہے۔
اُن کے بقول اس کے ساتھ ساتھ تاجکستان اور ترکمانستان کے ساتھ ملحقہ علاقوں کا کنٹرول بھی طالبان نے حاصل کر لیا ہے جس کے کاروبار پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
لڑائی کے باعث اشیائے خورونوش اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ
جاوید واک کے مطابق لڑائی سے قبل مزار شریف میں ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت 38 افغانی تھی جو کہ اب بڑھ کر 55 افغانی ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں نے بیشتر کاروبار چھوڑ دیے ہیں اور اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ کابل یا بیرون ملک روانہ ہو گئے ہیں۔
اُن کے بقول اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور ڈالر کے مقابلے میں افغانی کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ ان تمام کارروائیوں میں جانی نقصان بہت کم ہوا ہے۔ کیوں کہ زیادہ تر علاقوں میں افغان فورسز بغیر لڑے ہتھیار ڈال رہی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ قندوز اور بغلان سے تقریبان 15 ہزار افراد کابل کی جانب نقل مکانی کر چکے ہیں۔ اسی طرح صوبہ بلخ میں ایسے تمام اضلاع جو کہ طالبان کے زیرِ تسلط آئے ہیں وہاں سے بھی سیکڑوں گھرانوں نے دوسرے علاقوں کا رُخ کیا ہے۔
جاوید واک کا مزید کہنا تھا کہ دن بدن افغانستان میں امن و امان کی صورتِ حال خراب ہو رہی ہے جس کے اثرات لوگوں کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کے کاروبار پر بھی پڑ رہے ہیں۔
محقق اور افغان امور کے ماہر عبدالسید کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کو کابل کی جانب پیش قدمی کی صورت میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ مقامی افراد طالبان کی جانب سے حالیہ ایمنسٹی پیش کش کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کیوں کہ حال ہی میں طالبان کی قیادت نے واضح طور پر کہا تھا کہ ایسے تمام افراد جو نائن الیون کے بعد ان کے خلاف کسی بھی طور پر لڑائی کا حصہ رہ چکے ہوں انہیں اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔ اس لیے مقامی افراد طالبان کی اس نئی پیش کش کو اقتدار حاصل کرنے کے ساتھ جوڑتے ہیں۔