پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع میرپور خاص میں نامعلوم افراد کی جانب سے احمدیوں کی عبادت گاہ میں توڑ پھوڑ اور سامان کو آگ لگانے کا واقعہ پیش آیا ہے۔
احمدیہ کمیونٹی کے مطابق چند ماہ میں ضلعے میں تیسری عبادت گاہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں جس کے بعد ہی مقدمہ درج کیا جاسکے گا۔
تفصیلات کے مطابق میرپورخاص کے علاقے ڈھولن آباد میں واقع احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہ پر بعض افراد نے جمعرات کی صبح حملہ کیا۔
مشتعل افراد سیڑھی لگا کر عبادت گاہ کے بالائی حصے میں داخل ہوئے اور مینار توڑ دیے۔
احمدیہ جماعت کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ عبادت گاہ کو آگ لگانے بھی لگانے کی بھی کوشش کی گئی۔
مقامی صحافیوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس واقعے کے بعد پہنچی اور صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے ہجوم کو منتشر کیا لیکن تاحال مقدمہ درج نہیں ہو سکا۔ میرپور خاص پولیس کے ایک افسر نے صحافیوں کو بتایا کہ فی الوقت واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
تین فروری کو بھی ضلع میر پورخاص کے مقام گوٹھ چوہدری جاوید احمد میں نامعلوم افراد نے جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کے میناروں کو توڑ دیا تھا اور عبادت گاہ میں موجود سامان کو آگ بھی لگائی تھی۔
چار فروری کو میرپور خاص شہر کے علاقے سیٹیلائٹ ٹاون میں بھی رات کے وقت نامعلوم افراد نے احمدی عبادت گاہ پر فائرنگ کی جس کی گولیاں دروازے اور دیوار پر لگیں، تاہم خوش قسمتی سے اس واقع میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اس سے قبل کراچی اور عمر کوٹ میں بھی ایسے واقعات ہوئے جن میں احمدی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ صرف سندھ ہی نہیں بلکہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں بھی ایسی ہی کارروائیوں میں حالیہ دنوں احمدیوں کی عبدات گاہوں کو نقصان پہنچانے کی شکایات سامنے آئی تھیں۔
احمدیہ کمیونٹی کے ترجمان عامر محمود کا کہنا ہے کہ رواں سال مجموعی طور پر پانچ عبادت گاہوں کو نشانہ بنایاجاچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بڑھتے ہوئے واقعات جماعت کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ایسے واقعات ماضٰی میں بھی ہوچکے ہیں لیکن کچھ عرصے میں ان واقعات میں کافی تیزی دیکھی گئی ہے اور بعض واقعات کی ایف آئی آر تو درج ہوئی ہیں لیکن شاید ہی کسی واقعے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا ہو۔
عامر محمود کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین، سپریم کورٹ کے فیصلے اور عالمی انسانی حقوق کا منشور ہمیں مکمل مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے۔
حال ہی میں انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی ) کی جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں بھی ملک میں احمدی عبادت گاہوں کا تقدس پامال کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں گزشتہ سال مجموعی طور پر 92 احمدی قبرستانوں اور دس عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ کمیشن نے قرار دیا تھا کہ حکومت مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ میں ناکام دکھائی دیتی ہے جب کہ احمدیوں پر حملے کے واقعات میں کافی اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
حکومت احمدی کمیونٹی کے ساتھ پیش آنے والے ان واقعات پر اپنے ردِعمل میں کہتی رہی ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔
حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ ملکی قانون کے مطابق احمدی کمیونٹی اپنی عبادت گاہوں میں اسلامی شعائر یا عبارتیں درج نہیں کر سکتی، تاہم شر پسند عناصر کو احمدی برادری کو ہراساں کرنے یا اُن کے خلاف کسی بھی اقدام کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔