دہلی میں اسموگ؛ ’آپ چاہتے ہیں کہ دہلی کے لوگ گیس چیمبر میں رہیں؟‘

اس وقت دہلی اور مضافات کے علاقے زبردست دھند اور گرد و غبار کی لپیٹ میں ہیں جس کی وجہ سے فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔

دہلی میں جمعے کو ’اے کیو آئی‘ یعنی ہوا کا معیار کہیں ساڑھے چار سو، کہیں پانچ سو اور کہیں اس سے بھی زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔

آلودگی میں اضافے کے سبب شہریوں کو آنکھوں میں جلن، گلے میں خراش، خشک کھانسی اور سانس لینے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔

دہلی ہائی کورٹ نے شہر میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی پر جمعے کو تشویش ظاہر کی۔ اس نے اظہارِ ناراضی کرتے ہوئے حکومت کے محکمۂ جنگلات پر سخت تنقید کی اور کہا کہ اس کی جانب سے درختوں کی کٹائی کی اجازت دینے سے فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔

جسٹس جسمیت سنگھ نے محکمہ جنگلات کے حکم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ دہلی کے لوگ گیس چیمبر میں رہیں۔

اُن کے بقول ہوا کے معیار کو ریکارڈ کرنے والی مشین صرف 999 تک ریکارڈ کر سکتی ہے۔ آج ہم اس سطح تک پہنچ گئے ہیں۔

دہلی کے لیفٹننٹ گورنر (ایل جی) نے صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا ہے۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو ایک معاملے پر سماعت کرتے ہوئے دہلی میں فضائی آلودگی میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ چند عشروں قبل تک یہ وقت دہلی میں بہت خوشگوار ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب ہوا کے خراب ہوتے ہوئے معیار کی وجہ سے گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔

اس نے دہلی، پنجاب، ہریانہ، اترپردیش اور راجستھان کی حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ حلف نامہ داخل کر کے فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے عدالت کو باخبر کریں۔

عدالت نے کہا کہ فصلوں کی باقیات کو نذرِ آتش کرنا دہلی میں آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

یاد رہے کہ دہلی حکومت بار بار یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ پنجاب اور ہریانہ میں فصلوں کی باقیات کو نذرِ آتش کرنے سے دہلی میں آلودگی بڑھتی ہے۔

دہلی کے شہری اس صورتِ حال کو تو کسی طرح برداشت کر لیتے ہیں لیکن باہر سے آنے والوں کے لیے بہت مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔

"میں گزشتہ پچیس تیس برس سے اترپردیش کے اعظم گڑھ ضلع سے دہلی آمد و رفت کر رہا ہوں۔ لیکن مجھے پہلی بار یہاں کی خطرناک آلودگی کا سامنا کرنا پڑا۔"

یہ کہنا تھا مکتبہ ضیاء الکتب خیرآباد کے پروپرائٹر 48 سالہ مولانا ضیاء الحق خیرآبادی کا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ "جب میں بغرض ضرورت باہر نکلا تو فضا بری طرح گرد آلود تھی۔ آنکھوں میں جلن، سینے میں تکلیف، گلے میں خراش اور سانس لینے میں دشواری محسوس ہونے لگی اور مجھے جلد ہی اپنی جائے قیام پر واپس آجانا پڑا۔"

ضیاء الحق خیرآبادی واحد شخص نہیں ہیں جن کو یہ پریشانی لاحق ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دہلی شہر کی تقریباً پوری آبادی اسی صورتِ حال سے دوچار ہے۔

خاص طور سے اسکول جانے والے بچے اور دمہ یا امراض تنفس میں مبتلا افراد کو گرد و غبار اور آلودگی سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا ہے۔

اترپردیش کے اناؤ ضلع سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ رام کھلاون اور ہریش جنوبی دہلی کے جامعہ نگر علاقے میں سبزی بیچتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُنہوں نے بتایا کہ وہ سبزی خریدنے کے لیے صبح چار بجے اٹھ کر منڈی جاتے ہیں۔ ان کے مطابق انھیں گزشتہ دو دنوں سے زیادہ پریشانی محسوس ہو رہی ہے۔ صبح کے وقت تو بس چند میٹر آگے تک ہی دکھائی دیتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ادھر کئی روز سے آنکھوں میں جلن اور سانس لینے میں بھی پریشانی ہو رہی ہے۔ لیکن گھر چلانا ہے تو جانا ہی پڑے گا۔‘ دفاتر کو جانے والے ملازمت پیشہ افراد کو بھی مذکورہ شکایتیں ہیں۔

’سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ‘ (سی پی سی بی) کے مطابق جمعے کو دہلی میں ’اے کیو آئی‘ یعنی ہوا کا معیار 460 ریکارڈ کیا گیا جو کہ شدت میں اضافے کے زمرے میں آتا ہے۔ اسے بدترین زمرہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ بعض مقامات پر 500 اور اس سے بھی زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔

خیال رہے کہ اے کیو آئی صفر سے 50 کے درمیان اچھا، 51 سے 100 کے درمیان اطمینان بخش، 101 سے 200 کے درمیان معتدل، 201 سے 300 کے درمیان خراب، 301 سے 400 کے درمیان بہت خراب اور 401 سے 500 کے درمیان انتہائی شدید یا بدترین مانا جاتا ہے۔

دہلی حکومت نے اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ اس نے تمام سرکاری و نجی پرائمری اسکولوں کو دو دنوں کے لیے بند کر دیا ہے۔

پولیوشن کنٹرول پینل نے غیر ضروری تعمیرات پر عارضی پابندی لگا دی ہے۔ دہلی، گوڑگاؤں، فرید آباد، غازی آباد اور نوئڈا میں پرانی پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کے چلنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

دہلی حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے الیکٹرک شٹل بس شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ نقل و حمل کے نجی ذرائع سے بچیں۔

حکومت نے اپنی ایک پرانی مہم ’ریڈ لائٹ آن گاڑی آف‘شروع کر دی ہے۔ اس نے ایک ہزار نجی سی این جی بسیں خریدنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

بھارت میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی نے جمعرات کو ایک پروگرام میں بولتے ہوئے دہلی میں خراب فضائی آلودگی کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کی بیٹی کو اسکول ٹیچر نے انتباہ دیا ہے کہ وہ باہر کھلے میں نہ کھیلیں۔

بقول ان کے انھیں امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں گزارے ہوئے اپنے بچپن کے دن یاد آگئے جب ان کے ٹیچر نے انھیں باہر کھلے میں کھیلنے سے منع کیا تھا۔

دہلی کے وزیر ماحولیات گوپال رائے نے دعویٰ کیا کہ دہلی میں کئی برس کے دوران فضائی آلودگی کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے۔ ان کے مطابق 2015 میں ہوا کا معیار 109 دنوں تک اچھا رہا۔ جب کہ 2023 میں دنوں کی یہ تعداد بڑھ کر 200 ہو گئی ہے۔ دہلی میں نومبر کے پہلے 15 روز نازک ہوتے ہیں۔

انھوں نے الزام لگایا کہ دہلی میں آلودگی کا سبب ہمسایہ ریاستیں ہیں اور اپوزیشن اور مرکزی حکومت کو اس سلسلے میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرنا چاہیے۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا مرکزی حکومت کی وزارت ماحولیات کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

سائنس دانوں نے انتباہ دیا ہے کہ اگلے دو ہفتوں کے دوران آلودگی کی سطح میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ جب کہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی بڑھنے سے معمر افراد اور بچوں میں دمہ کے مرض میں اضافے اور پھیپھڑے کی بیماری بڑھنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران اسپتال آنے والے یومیہ مریضوں، بالخصوص سانس اور پھیپھڑے کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ممکن ہے کہ ایسا درجۂ حرارت میں کمی اور آلودگی میں اضافے کی وجہ سے ہوا ہو۔

’صفدر جنگ اسپتال‘ میں شعبہ تنفس کے سربراہ ڈاکٹر نیرج گپتا کا کہنا ہے کہ ’آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ‘ (او پی ڈی) میں مریضوں کی تعداد تقریباً 20 فی صد بڑھ گئی ہے۔ ان کو خشک کھانسی، گلے میں خراش، آنکھوں میں جلن اور سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے۔

صفدر جنگ اسپتال کے سابق ڈپٹی ڈائرکٹر ڈاکٹر سید احمد خاں کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اس وقت بالخصوص بچوں، بزرگوں اور سانس اور پھیپھڑے کے امراض میں مبتلا افراد کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے ایسے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ سخت ضرورت کے وقت ہی گھر سے باہر نکلیں، ماسک کا استعمال کریں، خوب پانی یا سیال چیزیں پئیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگوں کو کھانے پینے میں احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی غذائی اشیا سے بچیں جن سے ان کے امراض میں اضافے کا خدشہ ہو۔ بالخصوص ہری سبزی اور پروٹین کی چیزیں زیادہ لیں۔