مجھے اس وقت پاکستان کا ایک اور منظر یاد آیا جب بند کمرے میں اجلاس شروع تھا اور لاتعداد صحافی کمرے کے باہر دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ٹی وی چینل براہ راست کمرے کے باہر کا ماحول دکھا رہے تھے
میں نے امریکہ کے صدارتی انتخابات سےچند ہی روز قبل ناردرن ورجینیا کالج میں اپنے ایک امریکی کلاس فیلو سے پوچھا کہ وہ اس صدارتی الیکشن میں کس کو ووٹ دے رہا ہے؟ اُس کا جواب مجھے حیران کرنے کے لیے کافی تھا کہ میں نے ابھی صدارتی امیدواران کے درمیان مباحثہ نہیں سنا ۔ میں اپنے ووٹ کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہوں؟
میری حیرانگی کو بھانپتے ہوئے اس نے مزید کہا کہ میں صدر اوباما کی کارکردگی اور شخصیت سے تو چار سال سے واقف ہوں، لیکن مٹ رومنی کو بھی سننا چاہتا ہوں۔ کیا پتہ وہ اوباما سے بہتر سوچ، شاندار ماضی اور ویژن کے مالک ہوں۔
مجھے اس وقت پاکستان کا ایک اور منظر یاد آیا جب بند کمرے میں اجلاس شروع تھا اور لاتعداد صحافی کمرے کے باہر دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ٹی وی چینل براہ راست کمرے کے باہر کا ماحول دکھا رہے تھے۔ کمرے کا دروازہ کھلتا تو صحافی پینسل سیدھی کر کے لکھنے کے لیے تیار ہو جاتے اور ٹی وی چینلز کے رپورٹرز ناظرین سے مخاطب ہو جاتے۔ لیکن، معلوم ہوتا کہ کمرے سے باہرآنے والا کوئی سرکاری عہدےدار نہیں بلکہ خدمتگار ہے جو شرکائے اجلاس کی خدمت کے لیے ہمہ تن گوش ہے۔
ٹی وی کے سامنے بیٹھے لوگ بھی سکرین پر نظر جمائے بیٹھےتھے اور دروازے کھلنے کے ساتھ ان کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہو جاتی۔ ہتھیلیوں میں پسینہ آ جاتا۔ یہ سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ نہ عوام نے پلک جھپکی اور نہ چینلز معمول کی نشریات پر واپس آئے۔ آخر ایک صاحب باہر آئے اور میڈیا کو بتایا کہ وزیراعظم کے نام کا اعلان کل ہو گا۔
یہ صورتحال تھی اس اجلاس کی جوآصف علی زرداری کی صدارت میں وزیر اعظم کی نامزدگی کے لیئے منعقد تھا۔اس وقت زرداری صاحب نہ صدر تھے نہ ممبر اسمبلی ، مگر ملک کے اعلیٰ ترین عہدے کے لیئے فیصلہ کر رہے تھے۔ اگلے اجلاس تک ووٹ دینے والے بھی مخمصے کا شکار رہے کہ ہمارا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا اور عوام سے ووٹ لینے والے بھی تجسس کا شکار تھے کہ اقتدار کی ہما کس کے سر بیٹھے گی؟
امریکی صدارتی انتخابات میں مہم صدارتی امیدواران کے نام سے چلی۔ ٹھیک ہے صدارتی نظام ہے لیکن امریکی عوام کو علم تھا کہ جس کو ووٹ دے رہے ہیں اس کا یجنڈا کیا ہے، ویژن کیا ہے اور ماضی کیا ہے۔ امیدوارن آمنے سامنے بیٹھتے ہیں، اپنی پالیسی بیان کرتے ہیں، عوام اور مخالف امیدوار کے سوالات کا جواب دیتےہیں۔ گویا ، شخصیت کھل کر عوام کے سامنے آ جاتی ہے اور ایک امریکی ووٹر کو معلوم ہوتا ہے کہ جس کو میں ووٹ دوں گا اس کا ماضی کیسا ہے؟ اس کی صلاحیت کیا ہے؟ اور وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟
مجھے حیرانگی ہوتی ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام حکمرانوں کا انتخاب ٹھیک نہیں کرتے۔ جناب ، جب انھیں علم ہی نہیں ہوتا کہ جس جماعت کو وہ ووٹ دے رہے ہیں وہ کس کو وفاداری کےصلے میں وزیر اعظم بنا دے گی، تو وہ کیسے ٹھیک قیادت کا انتخاب کریں؟ بلکہ، اگر میں یہ کہوں کہ جو انتخابی حلقے کی سطح پر ووٹ لیتا ہے اس بچارے کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ بادشاہ سلامت کس کو وزیراعظم نامزد کر کے اسمبلی اجلاس میں ووٹ دینے کا حکم نامہ جاری کریں گے۔ توبھی غلط نہ ہوگا۔
مجھے یہ سب لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ چند روز قبل میرے ایک دوست سکائپ پر پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے پاکستان کی حالت زار سنا رہے تھے اور حکومت کو ہدف تنقید بنا رہے تھے۔ میں نے کہا کہ آپ تو موجودہ حکمران جماعت کے سپورٹر تھے اور ووٹ مانگتے تھے اب آپ کیوں رونا رو رہے ہیں؟
ان کا جواب تھا کہ مجھے کیا معلوم تھا کہ یوسف رضا گیلانی اور پھر پرویز اشرف کو وزیراعظم بنا دیا جائے گا۔ مجھے اگر یہ معلوم ہوتا کہ ریلوے کی وزارت بلور صاحب کو جائے گی اور میڈیکل ڈاکٹر کو وزیر پٹرولیم بنایا جائے گا تو میں ممکن ہے ووٹ اس جماعت کو نہ دیتا۔
میرے وہ دوست ایک سوال یہ بھی پوچھ رہے تھےکہ کیا ہم اپنی سیاسی جماعتوں سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کہ انتخابی مہم سے قبل اپنے وزیراعظم اور کابینہ کے افراد کے نام سامنے لائیں، تا کہ ووٹرز کی کثیر تعداد اپنا فیصلہ نامزد وزیراعظم اور کابینہ کی اہلیت اور صلاحیت کو دیکھ کر
کر سکیں۔
عبدل کا امریکہ(Facebook)
میری حیرانگی کو بھانپتے ہوئے اس نے مزید کہا کہ میں صدر اوباما کی کارکردگی اور شخصیت سے تو چار سال سے واقف ہوں، لیکن مٹ رومنی کو بھی سننا چاہتا ہوں۔ کیا پتہ وہ اوباما سے بہتر سوچ، شاندار ماضی اور ویژن کے مالک ہوں۔
مجھے اس وقت پاکستان کا ایک اور منظر یاد آیا جب بند کمرے میں اجلاس شروع تھا اور لاتعداد صحافی کمرے کے باہر دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ٹی وی چینل براہ راست کمرے کے باہر کا ماحول دکھا رہے تھے۔ کمرے کا دروازہ کھلتا تو صحافی پینسل سیدھی کر کے لکھنے کے لیے تیار ہو جاتے اور ٹی وی چینلز کے رپورٹرز ناظرین سے مخاطب ہو جاتے۔ لیکن، معلوم ہوتا کہ کمرے سے باہرآنے والا کوئی سرکاری عہدےدار نہیں بلکہ خدمتگار ہے جو شرکائے اجلاس کی خدمت کے لیے ہمہ تن گوش ہے۔
ٹی وی کے سامنے بیٹھے لوگ بھی سکرین پر نظر جمائے بیٹھےتھے اور دروازے کھلنے کے ساتھ ان کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہو جاتی۔ ہتھیلیوں میں پسینہ آ جاتا۔ یہ سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ نہ عوام نے پلک جھپکی اور نہ چینلز معمول کی نشریات پر واپس آئے۔ آخر ایک صاحب باہر آئے اور میڈیا کو بتایا کہ وزیراعظم کے نام کا اعلان کل ہو گا۔
یہ صورتحال تھی اس اجلاس کی جوآصف علی زرداری کی صدارت میں وزیر اعظم کی نامزدگی کے لیئے منعقد تھا۔اس وقت زرداری صاحب نہ صدر تھے نہ ممبر اسمبلی ، مگر ملک کے اعلیٰ ترین عہدے کے لیئے فیصلہ کر رہے تھے۔ اگلے اجلاس تک ووٹ دینے والے بھی مخمصے کا شکار رہے کہ ہمارا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا اور عوام سے ووٹ لینے والے بھی تجسس کا شکار تھے کہ اقتدار کی ہما کس کے سر بیٹھے گی؟
امریکی صدارتی انتخابات میں مہم صدارتی امیدواران کے نام سے چلی۔ ٹھیک ہے صدارتی نظام ہے لیکن امریکی عوام کو علم تھا کہ جس کو ووٹ دے رہے ہیں اس کا یجنڈا کیا ہے، ویژن کیا ہے اور ماضی کیا ہے۔ امیدوارن آمنے سامنے بیٹھتے ہیں، اپنی پالیسی بیان کرتے ہیں، عوام اور مخالف امیدوار کے سوالات کا جواب دیتےہیں۔ گویا ، شخصیت کھل کر عوام کے سامنے آ جاتی ہے اور ایک امریکی ووٹر کو معلوم ہوتا ہے کہ جس کو میں ووٹ دوں گا اس کا ماضی کیسا ہے؟ اس کی صلاحیت کیا ہے؟ اور وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟
مجھے حیرانگی ہوتی ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام حکمرانوں کا انتخاب ٹھیک نہیں کرتے۔ جناب ، جب انھیں علم ہی نہیں ہوتا کہ جس جماعت کو وہ ووٹ دے رہے ہیں وہ کس کو وفاداری کےصلے میں وزیر اعظم بنا دے گی، تو وہ کیسے ٹھیک قیادت کا انتخاب کریں؟ بلکہ، اگر میں یہ کہوں کہ جو انتخابی حلقے کی سطح پر ووٹ لیتا ہے اس بچارے کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ بادشاہ سلامت کس کو وزیراعظم نامزد کر کے اسمبلی اجلاس میں ووٹ دینے کا حکم نامہ جاری کریں گے۔ توبھی غلط نہ ہوگا۔
مجھے یہ سب لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ چند روز قبل میرے ایک دوست سکائپ پر پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے پاکستان کی حالت زار سنا رہے تھے اور حکومت کو ہدف تنقید بنا رہے تھے۔ میں نے کہا کہ آپ تو موجودہ حکمران جماعت کے سپورٹر تھے اور ووٹ مانگتے تھے اب آپ کیوں رونا رو رہے ہیں؟
ان کا جواب تھا کہ مجھے کیا معلوم تھا کہ یوسف رضا گیلانی اور پھر پرویز اشرف کو وزیراعظم بنا دیا جائے گا۔ مجھے اگر یہ معلوم ہوتا کہ ریلوے کی وزارت بلور صاحب کو جائے گی اور میڈیکل ڈاکٹر کو وزیر پٹرولیم بنایا جائے گا تو میں ممکن ہے ووٹ اس جماعت کو نہ دیتا۔
میرے وہ دوست ایک سوال یہ بھی پوچھ رہے تھےکہ کیا ہم اپنی سیاسی جماعتوں سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کہ انتخابی مہم سے قبل اپنے وزیراعظم اور کابینہ کے افراد کے نام سامنے لائیں، تا کہ ووٹرز کی کثیر تعداد اپنا فیصلہ نامزد وزیراعظم اور کابینہ کی اہلیت اور صلاحیت کو دیکھ کر
کر سکیں۔
عبدل کا امریکہ(Facebook)