جرمنی کی طالبہ کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن میں اس کا جواب سننے کے بعد اپنی سوچ میں گم ہو گیا کہ میں کیا جواب دوں؟ کچھ دیر بعد میرا نمبر آیا تو میرا جواب تھا کہ ہم صبح آٹھ سے دن دو بجے تک کام کرتے ہیں۔
اپنے اپنے ملک میں سرکاری دفاتر کے اوقات کار بتائیں؟ یہ سوال ایک خاتون پروفیسر نے ناردرن ورجینیا کالج میں اس کلاس سے پوچھا جس کا میں بھی حصہ تھا۔ سب سے پہلے سعودی عرب سے تعلق رکھنے والا ایک کلاس فیلو تھا جس نے کہا کہ ہم اپنے سرکاری دفاتر میں صبح ساڑھے سات بجے سےتین بجے تک کام کرتے ہیں۔ ساتھ برجمان ترکی کے سٹوڈنٹ نے جواب دیا کہ وہ نو سے پانچ بجے تک کرتے ہیں۔
دوسری نشست پر بیٹھی مصر کی ایک طالبہ کا جواب نو سے چار بجے تک تھا۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والی طالبہ کے جواب پر سب نے مسکراہٹ سے اسے سراہا کیوں کہ اس کا جواب تھا صبح آٹھ بجے سے شام چھ بجے تک۔
جرمنی کی طالبہ کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن میں اس کا جواب سننے کے بعد اپنی سوچ میں گم ہو گیا کہ میں کیا جواب دوں؟ کچھ دیر بعد میرا نمبر آیا تو میرا جواب تھا کہ ہم صبح آٹھ سے دن اڑھائی بجے تک کام کرتے ہیں۔ جس پر سب حیران ہوئے۔ پاکستان کے نام سے انجان ایک لڑکی نے پوچھا کہ کیا پاکستان بھی سعودی عرب کا حصہ ہے؟
میں نے انھیں یہ کہہ کر اطمینان دلانےکی کوشش کی کہ ہم ایک ہفتہ وار تعطیل کرتے ہیں۔ لیکن اس سوال نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ہم سعودی عرب کا حصہ ہیں؟ اس نے یہ سوال اس لیے پوچھا کہ ہم آفس میں سب سے کم کام کرتے ہیں شائد سعودی عرب کی طرح پاکستان میں بھی تیل کے کنوئیں ہوں۔
امریکہ میں بھی دفتری اوقات کار نائین ٹو فائیو ہیں لیکن یہاں کام کا مطلب کام لیا جاتا ہے۔ اکثر سرکاری دفاتر میں الیکٹرانک چیک ان اور چیک آوٹ کا نظام ہے جو آنے اور جانے کا وقت سیکنڈ کے حساب سے بتا دیتا ہے۔ اور ایسے دفاتر کی تعداد زیادہ ہے جہاں ملازمین پر اعتبار کیا جاتا ہے لیکن وہ بھی اس اعتماد کو نہیں توڑتے کیوں کہ انھیں کام چوری کرنے پر ساتھی ملازمین کی جانب سے عجیب نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میں مظفرآباد اور اسلام آباد کے مختلف دفاتر میں متعدد بار گھنٹوں کلرک بادشاہ کے انتظار میں کھڑا رہاہوں ان کے چپڑاسی صاحب نے بتایا کہ وہ زرہ باہر نکلے ہیں۔ اور اگر بڑے صاحب نے دفتر نہ آنا ہو تو کلرک بادشاہ کی تو موجیں ہی موجیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہمارے ہاں مشہور ہے کہ فائل کے ساتھ سائل نہ ہو تو وہ چلتی نہیں اور فائلوں کا سرخ فیتے کی نذر ہونا کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ مجھے یہ بات اتنی شدت سے محسوس نہ ہوتی اگر میں امریکہ کا دفتری نظام نہ دیکھتا۔ ہمارا سرکاری دفتری وقت پہلے ہی بہت کم ہے اور پھر سرکاری ملازمین کا تاخیر سے دفتر آنا اور کام چوری تو کیسے کام جلدی ہوں۔
بدقسمتی سے ہمارے زیادہ تر سرکاری دفاتر میں اعلیٰ آفیسران کے آنے کا وقت آٹھ کے بجائے دس بجےہوتا ہے۔ اور آپ اس روش کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک سرکاری دفتر میں جہاں میں بھی ملازم تھا ایک آفیسر صرف نصف گھنٹہ تاخیر سے آتے تھے تو ماتحت عملہ کہتا تھا کہ صاحب اپنی بیگم سے تنگ ہیں۔
عبدل کا امریکہ(Facebook)
دوسری نشست پر بیٹھی مصر کی ایک طالبہ کا جواب نو سے چار بجے تک تھا۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والی طالبہ کے جواب پر سب نے مسکراہٹ سے اسے سراہا کیوں کہ اس کا جواب تھا صبح آٹھ بجے سے شام چھ بجے تک۔
جرمنی کی طالبہ کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن میں اس کا جواب سننے کے بعد اپنی سوچ میں گم ہو گیا کہ میں کیا جواب دوں؟ کچھ دیر بعد میرا نمبر آیا تو میرا جواب تھا کہ ہم صبح آٹھ سے دن اڑھائی بجے تک کام کرتے ہیں۔ جس پر سب حیران ہوئے۔ پاکستان کے نام سے انجان ایک لڑکی نے پوچھا کہ کیا پاکستان بھی سعودی عرب کا حصہ ہے؟
میں نے انھیں یہ کہہ کر اطمینان دلانےکی کوشش کی کہ ہم ایک ہفتہ وار تعطیل کرتے ہیں۔ لیکن اس سوال نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ہم سعودی عرب کا حصہ ہیں؟ اس نے یہ سوال اس لیے پوچھا کہ ہم آفس میں سب سے کم کام کرتے ہیں شائد سعودی عرب کی طرح پاکستان میں بھی تیل کے کنوئیں ہوں۔
امریکہ میں بھی دفتری اوقات کار نائین ٹو فائیو ہیں لیکن یہاں کام کا مطلب کام لیا جاتا ہے۔ اکثر سرکاری دفاتر میں الیکٹرانک چیک ان اور چیک آوٹ کا نظام ہے جو آنے اور جانے کا وقت سیکنڈ کے حساب سے بتا دیتا ہے۔ اور ایسے دفاتر کی تعداد زیادہ ہے جہاں ملازمین پر اعتبار کیا جاتا ہے لیکن وہ بھی اس اعتماد کو نہیں توڑتے کیوں کہ انھیں کام چوری کرنے پر ساتھی ملازمین کی جانب سے عجیب نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کے چپڑاسی صاحب نے بتایا کہ وہ زرہ باہر نکلے ہیں۔ اور اگر بڑے صاحب نے دفتر نہ آنا ہو تو کلرک بادشاہ کی تو موجیں ہی موجیں ۔ ۔
میں مظفرآباد اور اسلام آباد کے مختلف دفاتر میں متعدد بار گھنٹوں کلرک بادشاہ کے انتظار میں کھڑا رہاہوں ان کے چپڑاسی صاحب نے بتایا کہ وہ زرہ باہر نکلے ہیں۔ اور اگر بڑے صاحب نے دفتر نہ آنا ہو تو کلرک بادشاہ کی تو موجیں ہی موجیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہمارے ہاں مشہور ہے کہ فائل کے ساتھ سائل نہ ہو تو وہ چلتی نہیں اور فائلوں کا سرخ فیتے کی نذر ہونا کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ مجھے یہ بات اتنی شدت سے محسوس نہ ہوتی اگر میں امریکہ کا دفتری نظام نہ دیکھتا۔ ہمارا سرکاری دفتری وقت پہلے ہی بہت کم ہے اور پھر سرکاری ملازمین کا تاخیر سے دفتر آنا اور کام چوری تو کیسے کام جلدی ہوں۔
بدقسمتی سے ہمارے زیادہ تر سرکاری دفاتر میں اعلیٰ آفیسران کے آنے کا وقت آٹھ کے بجائے دس بجےہوتا ہے۔ اور آپ اس روش کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک سرکاری دفتر میں جہاں میں بھی ملازم تھا ایک آفیسر صرف نصف گھنٹہ تاخیر سے آتے تھے تو ماتحت عملہ کہتا تھا کہ صاحب اپنی بیگم سے تنگ ہیں۔
عبدل کا امریکہ(Facebook)