محکمۂ داخلہ سندھ نے رکنِ قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما علی وزیر کو گرفتاری کے تقریباً 23 ماہ اور چار مقدمات میں ضمانت کے بعد ایک اور مقدمے میں گرفتار کرنے کے احکامات جاری کردیےہیں۔
وائس آف امریکہ کو محکمۂ داخلہ سندھ کے جاری کردہ احکامات کی موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق کراچی سینٹرل جیل حکام کو آگاہ کیا گیا ہے کہ علی وزیر مزید ایک اور کیس میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ ان پر یہ مقدمہ خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں درج کیا گیا تھا۔
اس مقدمے میں علی وزیر پر بغاوت، ہنگامہ آرائی، ریاستی اداروں کو بدنام کرنے، عوام میں بدگمانی پھیلانے اور مجرمانہ نیت سے نقصان پہنچانے جیسے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔
اس سے قبل علی وزیر کے خلاف دائر تین مقدمات میں ان کی ضمانت ہوچکی ہے جن میں سے دو کراچی میں جبکہ ایک بنوں میں درج کیا گیا تھا۔ 46 سالہ علی وزیر کو دو روز قبل ہی پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کی جانب سے بنوں میں ایسے ہی الزامات کے تحت درج مقدمے میں بھی ضمانت ملی تھی۔
ان تمام مقدمات میں جنوبی وزیر ستان سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی کے خلاف کم و بیش یکساں الزامات عائد کئے گئے ہیں جن میں ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور عوام کو ریاست کے خلاف اُکسانے جیسے الزامات شامل ہیں۔
کراچی میں درج ایسے ہی ایک مقدمے میں انہیں انسدادِ دہشت گردی عدالت کی جانب سے بری کیا جاچکا ہے۔ علی وزیر کو 16 دسمبر 2020 کو پشاور سے گرفتار کرکے کراچی پولیس کے حوالے کیا گیا تھا جس کے بعد سے وہ کراچی سینٹرل جیل میں قید ہیں۔
SEE ALSO: علی وزیر سمیت 12 ملزمان ریاست مخالف تقاریر کے مقدمے میں بریانسانی حقوق کے کارکنان اور وکلا کا ردِ عمل
انسانی حقوق کے کارکنوں اور وکلاء نے علی وزیر کی طویل گرفتاری کے بعد ایک اور کیس میں گرفتاری ظاہر کرنے کو واضح طور پر قوانین کا غلط استعمال اور ناانصافی قرار دیا ہے۔
فوجداری قوانین کے معروف وکیل شوکت حیات ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایک اور مقدمے میں علی وزیر کی گرفتاری کو طاقت کا غلط استعمال قرار دیا۔ ان کے بقول ملک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔
شوکت حیات کا کہنا تھا کہ خود علی وزیر کو بھی اس ناانصافی کے خلاف قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ عدالت عظمیٰ کے مختلف فیصلوں میں ایک ہی الزام کے تحت مختلف مقدمات قائم کرکے گرفتار کرنے کے بجائے انہیں ایک ہی کیس میں تبدیل کرنے کا حکم دیا چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسی طرح کسی شخص کے طویل عرصے تک گرفتار رہنے کے بعد دوبارہ گرفتاری کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ عام طور پر ایسی کاررائیوں کا مقصد ملزم کو مسلسل ہراساں کرنا ہوتا ہے۔
ملک کے نمایاں ماہرین قانون اور کئی پارلیمنٹیرینز بھی اس حوالے سے آواز اٹھاچکے ہیں کہ پاکستان پینل کوڈ میں درج ملک کے خلاف بغاوت پر لوگوں کو اکسانے، ریاست کے خلاف جنگ شروع کرنے اور اس سے ملتی جلتی دیگر دفعات کو ختم کردینا چاہیے۔ یہ رائے رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ یہ نوآبادیاتی دور کے قوانین ہیں جو آئین میں دی گئی آزادیٔ اظہارِ رائے سے براہ راست متصادم ہیں۔
’رکنِ قومی اسمبلی کو نمائندگی سےمحروم رکھا جارہا ہے‘
انسانی حقوق کی متحرک کارکن اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق شریک چیئرپرسن عظمیٰ نورانی نے علی وزیر کی ایک اور کیس میں گرفتاری کو انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
SEE ALSO: پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے باوجود علی وزیر کی اسمبلی اجلاس میں شرکت میں رکاوٹ کیاہے؟عظمیٰ نورانی کے مطابق وہ دوران حراست علی وزیر سے ملاقات بھی کرچکی ہیں اور ان کے خیالات سے کہیں نہیں لگتا کہ وہ کسی ریاست مخالف ایجنڈے پر قائم ہیں۔
ان کے مطابق علی وزیر صرف اپنے علاقے کے عوام کے حق کے لیے انتہائی دلیرانہ انداز سے اپنا مؤقف پیش کرنے والے شخص ہیں اور ایسا کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
عظمیٰ نورانی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ منتخب رکن اسمبلی کے ساتھ مسلسل ناانصافی کی جارہی ہے اور انہیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں نمائندگی کے حق سے محروم رکھ کرجمہوری روایات کا بھی مذاق اڑایا جارہا ہے۔
سندھ حکومت اس معاملے پر بدستور مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے ۔ وائس آف امریکہ نے حکومتِ سندھ کے ترجمان سے علی وزیر کی ایک اور کیس میں گرفتاری پر تبصرہ کے لیے رابطہ کیا جس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
علی وزیر گزشتہ 23 ماہ سے کراچی کی سینٹرل جیل میں قید ہیں جب کہ انہیں سندھ میں قائم تمام مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے۔
’اسٹیبلشمنٹ سبق سکھانا چاہتی ہے‘
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین نے علی وزیر کو ایک اور مقدمے میں گرفتار کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاستی اسٹیبلشمنٹ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو سبق سکھانا چاہتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے منظور پشتین کا کہنا تھا کہ اب تک پی ٹی ایم کے کارکنوں پر ملک بھر میں 70 سے زائد مقدمات قائم کئے جاچکے ہیں لیکن کسی ایک بھی مقدمے میں ریاست کی جانب سے عائد الزامات ثابت نہیں ہوئے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان میں سیاسی تشدد اور حادثات کی تاریخان کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات سے ریاستی اداروں بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نفرت اور بھی بڑھ رہی ہے۔
منظور پشتین اپنی تحریک سے جُڑے کارکنوں پر بغاوت اور نفرت انگیز تقاریر کی دفعات کے تحت درجنوں مقدمات کا براہِ راست ذمہ دار فوج کو قرار دیتے ہیں۔جب کہ فوج اس قسم کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سارے عمل میں سیاسی جماعتوں نے بھی انہیں مایوس کیا ہے۔ موجودہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں جب حزب اختلاف میں تھیں تو وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کرتی تھیں لیکن اب اس کے لیے آواز اٹھانے کی خاطر تیار نہیں۔ علی وزیر کو ان کے حلقے کے عوام کی نمائندگی سے بھی مسلسل محروم رکھا جارہا ہے۔
منظور پشتین کاکہنا تھا کہ اب بھی عدالتی عمل پر ان کا اعتماد کسی حد تک برقرار ہے تاہم وہ علی وزیر کی رہائی کے لیے قانونی کوششوں کے ساتھ احتجاجی تحریک بھی جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔