پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرا دی ہے جس کے بعد ملک میں سیاسی درجۂ حرارت بڑھ گیا ہے۔ تاہم تحریکِ عدم اعتماد کی گونج پنجاب میں بھی سنائی دے رہی ہے جہاں بعض تجزیہ کاروں کے بقول وزیرِ اعلٰی سردار عثمان بزدار کو بھی اپنی بقا کا چیلنج درپیش ہے۔
حکمراں جماعت تحریک انصاف کے منحرف دھڑے ترین گروپ نے عثمان بزدار کو فارغ کرنے کا مطالبہ کر رکھا ہے تو وہیں وزیرِ اعظم عمران خان سردار عثمان بزدار کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کر چکے ہیں۔
ایسے میں پنجاب کی سیاست بھی اہم موڑ پر آ گئی ہے اور لاہور شہر بھی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ایک جانب جہاں ترین گروپ نے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی سے ملاقات کی ہے تو وہیں قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے منصورہ لاہور میں امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق سے ملاقات کی ہے۔
کیا پنجاب میں بھی مرکز کی طرح کوئی سیاسی تبدیلی آنے کے امکانات ہیں؟ وزیرِ اعظم کب تک عثمان بزدار کا دفاع کرتے رہیں گے؟ مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناطے آگے کیا کرنے جا رہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو پنجاب کی سیاسی راہداریوں میں گردش کر رہے ہیں۔
علیم خان عثمان بزدار سے نالاں کیوں ہیں؟
یہ کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب 2018 کے انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی، لیکن اسے تحریکِ انصاف کے مقابلے میں صرف چند ووٹوں کی ہی برتری تھی جسے جہانگیر ترین اور علیم خان نے ختم کیا اور آزاد اراکین کو ساتھ ملایا جس کی بدولت تحریکِ انصاف کی حکومت بنی۔
لیکن جب ایک ویڈیو پیغام میں وزیرِ اعظم عمران خان نے سردار عثمان بزدار کو وزیرِ اعلٰی نامزد کیا تو پاکستان کے بیشتر شہریوں کی طرح تحریکِ انصاف کے کئی مرکزی رہنما بھی ہکا بکا رہ گئے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے ساتھ منسلک رہنماؤں کو عثمان بزدار کی نامزدگی ایک آنکھ نہیں بھائی۔ ان رہنماؤں میں جہانگیر ترین اور علیم خان بھی شامل تھے۔ علیم خان کے خلاف نیب کیسز نے اُن کے وزیرِ اعلٰی بننے کی اُمید کو اور مدہم کر دیا تو اُنہوں نے پارٹی سرگرمیوں سے کنارہ کشی کر لی۔
SEE ALSO: کپتان جانتا ہے آگے کھیل کیا ہوگا: عمران خانلیکن اب علیم خان اور عثمان بزدار آمنے سامنے ہیں اور علیم خان نے کھل کر اس بات کا اظہار کر دیا ہے کہ عثمان بزدار کے ہوتے ہوئے وہ پارٹی قیادت سے مزید کوئی بات نہیں کریں گے۔
علیم خان بدلتے سیاسی موسموں کے پیشِ نظر اب لندن کا رُخ کر چکے ہیں جہاں وہ پہلے سے موجود جہانگیر ترین سے مشاورت کریں گے۔
تحریکِ عدمِ اعتماد کے بعد پنجاب میں بھی جوڑ توڑ
سینئر صحافی اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ جب سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوئی ہے تو پنجاب میں حکمران جماعت کے منحرف اراکین بھی کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ بظاہر یوں لگتا ہے کہ پنجاب میں چوہدری بردارن کے بجائے اب ترین گروپ بڑا سیاسی کھلاڑی بن کر اُبھرا ہے۔ اُن کے بقول بظاہر تو عبدالعلیم خان لندن میں جہانگیر ترین سے ملاقات کے لیے گئے ہیں، لیکن غالباً وہ نواز شریف سے بھی ملیں گے۔
پنجاب میں سیاسی تبدیلی کے لیے ترین گروپ سے رابطوں کے سوال شہباز شریف منگل کو اسلام آباد میں گول کر گئے اور پھر بدھ کو بھی سراج الحق سے ملاقات کے دوران اُنہوں نے اس پر اظہارِ خیال سے گریز کیا۔
کیا پنجاب اب بھی مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے؟
سینئر صحافی اور تجزیہ چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ اپنی تمام تر کوششیں اور وسائل بروئے کار لانے کے باوجود تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (ن) کو نیچا نہیں دکھا سکی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری غلام حسین کا کہنا تھا کہ اگر آج عام انتخابات کا اعلان ہو جائے تو مسلم لیگ (ن) ہی پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ہو گی۔
اُن کے بقول تحریکِ انصاف پنجاب کے رہنماؤں کی بے چینی اس لیے بھی بڑھ رہی ہے کیوں کہ عثمان بزدار کی گورننس کے بعد انتخابات میں جانا وہ گھاٹے کا سودا سمجھتے ہیں۔ لہذٰا پنجاب میں اُن کی نظریں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ہیں۔
خیال رہے کہ حکمراں جماعت کے رہنما حزبِ اختلاف کی جماعتوں پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے حکومتی اراکین کو کروڑوں روپے دینے کے علاوہ اُن سے آئندہ الیکشن میں ٹکٹ دینے کے وعدے بھی کیے جا رہے ہیں۔
البتہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے الزامات کو مسترد کیا ہے۔
چوہدری غلام حسین کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار کی کارکردگی سے نہ پارٹی مطمئن ہے، نہ عوام مطمئن ہیں ۔ اُن کے بقول سوائے عمران خان کے عثمان بزدار کی کامیابیاں کسی کو نظر نہیں آتیں۔
’ پنجاب کی سیاسی صورتِ حال واضح نہیں ہے‘
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ سمجھتی ہیں کہ پنجاب کی سیاسی صورتِ حال میں جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے۔ اونٹ ابھی کسی کروٹ بیٹھا نہیں ہے۔ ہر ایک کو لگ رہا ہے کہ اُن کے لیے گنجائش موجود ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نسیم زہرہ نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین کی جماعت کی جو پرانی سیاسی پوزیشن تھی اُس میں قدرے کمی دیکھی جا رہی ہے۔ چوہدری پرویز الہٰی کے بیٹے مونس الہٰی کہتے تھے کہ گھبرانا نہیں ہے لیکن شاید اَب وہ بھی گھبرا رہے ہوں گے کیوں کہ بات اُن کے ہاتھ سے بھی نکل گئی ہے۔
نسیم زہرہ نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اتنے دھڑے بن گئے ہیں کہ اب کسی ایک دھڑے کو دوسرے دھڑے پر فوقیت حاصل نہیں اور یوں لگ ہے کہ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں میں وہ لوگ واپس آ رہے ہیں جن کو عمران خان نے جھنڈی دکھائی تھی۔
نسیم زہرہ سمجھتی ہیں کہ نئے دھڑے سامنے آنے سے اس وقت پنجاب کی سیاسی صورتِ حال واضح نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب حکمران جماعت تحریک انصاف کے اندر ہی اتحاد نہیں ہے جس کا ذکر اتحادی جماعت کے وزیر طارق بشیر چیمہ بھی کر چکے ہیں کہ جب اُن کے اپنے لوگ ہی ساتھ نہیں تو وہ کیا کریں گے۔
اُنہوں نے کہا کہ اِس طرح کا سیاسی جوڑ توڑ کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ موجودہ حالات میں بہت سے کھلاڑی ہیں اور صورت حال واضح نہیں ہے۔
'مسلم لیگ (ن) پنجاب میں بھی اپنا ہوم ورک مکمل کر چکی ہے'
مسلم لیگ (ن) پنجاب کی رہنما عظمی بخاری کہتی ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں جس طرح ریزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کو خراب کیا گیا، اور جس طرح جوڑ توڑ کر کے یہ پنجاب حکومت بنائی گئی اس کا شیرازہ ایسے ہی بکھرنا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عظمٰی بخاری نے کہا کہ صوبہ پنجاب میں تبدیلی کے حوالے سے (ن) لیگ اپنا تمام ہوم ورک مکمل کر چکی ہے۔ اُن کی جماعت کے قائدین بہت کچھ کر رہے ہیں اور بہت کچھ ہو رہا ہے۔ جس کی تفصیلات یوں سامنے نہیں لا سکتے۔
عظمی بخاری کا کہنا تھا کہ پہلے ترین گروپ اور عبدالعلیم خان آپس کے معاملات طے کر رہے ہیں۔ اُس کے بعد (ن) لیگ کی قیادت سے مشاورت ہو گی۔ عبدالعلیم خان کو وزیراعلٰی پنجاب بنائے جانے کے سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ سیاست میں کیا نہیں ہو سکتا۔
چوہدری غلام حسین کی رائے میں اگر عبدالعلیم خان صوبہ پنجاب کے وزیراعلٰی بنتے ہیں تو کسی نہ کسی نے تو ناراض ہونا ہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کے پاس زیادہ مالی وسائل اور اچھی حکمتِ عملی ہے۔
چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں عثمان بزدار کے بطور وزیراعلٰی پنجاب رہنے سے بہت خوش ہیں۔ اِس سے اُنہیں سیاسی طور پر فائدہ مل رہا ہے اور ملتا رہے گا۔
عثمان بزدار کی ناراض پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں
موجودہ سیاسی صورتِ حال کے سبب وزیرِاعظم عمران خان کی ہدایت پر عثمان بزدار صوبہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے ناراض ارکانِ اسمبلی سے رابطوں کی کوشش میں ہیں۔ جن میں ترین گروپ کے ارکان بھی شامل ہیں۔
بدھ کو وزیر اعلیٰ نے پنجاب کابینہ کے اجلاس کی صدارت بھی کی ہے جس کے اعلامیے مطابق وزرا نے عثمان بزدار پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر میاں محمود الرشید کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے صوبے میں ناراض اراکین کو منانے کے لیے ڈیوٹیاں لگا دی ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر چوہدری برادران مسلم لیگ (ن) کا ساتھ نہ بھی دیں تو جہانگیر ترین کے منحرف اراکین مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دے کر پنجاب میں تحریکِ انصاف کی حکومت گرا سکتے ہیں۔
ترین گروپ کا دعویٰ ہے کہ اُن کے ساتھ 25 سے زائد اراکین پنجاب اسمبلی ہیں جب کہ 10 کے لگ بھگ اراکینِ قومی اسمبلی بھی اُن کے ساتھ ہیں۔