پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے خلاف آنے والی تحریکِ عدم اعتماد پر کھل کر اظہار خیال کرتے ہوئے اسے اپوزیشن جماعتوں کی سیاسی موت قرار دیا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے وہی کیا جس کی وہ دعا مانگ رہے تھے، کپتان کو پتا ہے کہ آگے کھیل کیسا ہو گا۔
اپنے ایک روزہ دورۂ کراچی کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں سے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ عدم اعتماد کی تحریک میں پھنس گئے ہیں۔ اب ان کے پیچھے جائیں گے اور ان کو نہیں چھوڑیں گے۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ کھیل میں کپتان کی کامیابی کا راز یہ ہوتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ آئندہ کا کھیل کیسے ہوگا۔ اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ 25 سال سے ان لوگوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ ساڑھے تین سال سے ملک کو سنبھال رہے تھے اور اس کو دیوالیہ ہونے سے بچا رہے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حزبِ اختلاف کی تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو گی۔ان کے مطابق وہ گلگت اور پنجاب میں مزید جلسے کریں گے اور عوام کو حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا اصل چہرہ دکھائیں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کا پیسہ بیرونِ ملک پڑا ہوا ہے۔ اس لیے یہ ان ممالک کے سامنے بات نہیں کر سکتے۔
حزبِ اختلاف کی تنقید کو رد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یورپی یونین کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔انہوں نے یورپی یونین کو یاد دلایا ہے کہ جب ان کے ساتھ جنگ میں شرکت کی تو پاکستان کے 80 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ملک کے قبائلی علاقوں سے 35 لاکھ افراد نے ہجرت کی تھی۔ پاکستان کی قریبانیاں کسی کو یاد نہیں ہیں۔ اب پھر کہا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ جنگ میں شامل ہوں۔پاکستان ان کے ساتھ کسی جنگ میں شامل نہیں ہو گا البتہ امن کے لیے ساتھ دیں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے اگلے ہی دن وزیر اعظم نے اتحادیوں سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں جب کہ عوامی اجتماعات سے وہ پہلے ہی خطاب کرنا شروع کرچکے تھے۔
سینئر تجزیہ کار نذیر لغاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دونوں جانب سے تحریکِ عدم اعتماد پر مقابلے کی تیاری شروع ہو گئی ہے جب کہ حکومتی اتحادی بھی اس صورتِ حال میں دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنے مفادات کا حصول کس طرح ممکن بناسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد کا جو بھی نتیجہ نکلے اس سے ملک کی معاشی حالت پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ روس اور یوکرین تنازع اور دیگر عالمی اور ملکی عوامل کی وجہ سے حالات خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اس صورتِ حال میں کسی بھی جماعت کی قیادت کے لیے ملک کی باگ ڈور سنبھالنا انتہائی مشکل ہوگا۔
’عمران خان کو اصل ڈر ہی آصف زرداری سے ہے‘
سندھ کے وزیرِ اعلی اور پیپلز پارٹی کے رہنما مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہو چکی ہے۔ ان کا وقت ختم ہو چکا ہے اب ہمارا وقت عوام کی خدمت کا آیا ہے۔
سندھ اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو میں سابق صدر آصف علی زرادری کے حوالے سے عمران خان کے بیان پر مراد علی شاہ نے کہا کہ ان کو اصل ڈر ہی انہی سے ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کو پانچ دن قبل ہی کہہ دیا تھا کہ مستعفی ہو جائیں اور پانچویں دن ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ گئی۔
وزیرِ اعظم کے متحدہ قومی موومنٹ کے دفتر آنے پر مراد علی شاہ نے کہا کہ وہ حکومت کے اتحادی ہیں۔ ساڑھے تین سال بعد وہ ان کے دفتر آئے ہیں یہ اچھی بات ہے لیکن ڈوبتی ہوئی کشتی میں کون چڑھے گا۔
’عمران خان کے لہجے اور چہرے سے شکست صاف نظر آ رہی ہے‘
دوسری جانب حزبِ اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے الزام عائد کیا کہ عمران خان نے پاکستان کی خود مختاری دوسروں کے حوالے کی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ عمران خان آج اپنے پہلے دوسرے اور تیسرے ٹارگٹ بتاتے رہے۔ وہ اپنی شکست تسلیم کر چکے ہیں۔
وزیرِ اعظم کے خطاب کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان آج خطاب میں دوسروں کی سیاسی موت کی بات کر رہے تھے البتہ اس خطاب سے واضح ہو گیا ہے کہ ان کی سیاسی موت ہو چکی ہے۔
اپوزیشن کی قومی اسمبلی میں جمع کرائی کی گئی تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خطاب سے اس تحریک کی کامیابی کی خوش خبری ملک گئی ہے۔
عمران خان کی اتحادیوں کو منانے کی کوشش
وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد اتحادیوں کو منانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کے بعد وزیرِ اعظم نے پہلی مرتبہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کراچی میں مرکزی دفتر کا دورہ کیا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات میں ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی، وفاقی وزیر امین الحق، عامر خان، سابق میئر کراچی وسیم اختر، نسرین جلیل اور دیگر موجود تھے۔ جب کہ عمران خان کے وفد میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، گورنر عمران اسمٰعیل، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر اور دیگر شامل تھے۔
مقامی میڈیا کے مطابق ایم کیو ایم نے وزیرِ اعظم سے صوبے میں دفاتر کھولنے اور لاپتا کارکنان کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے محمد ثاقب کے مطابق تقریبا 20 منٹ جاری رہنے والی ملاقات کے بعد ایم کیو ایم کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے صحافیوں کے سوالات پر بتایا کہ ایم کیو ایم بدستور حکومت کی اتحادی ہے اور وہ عدم اعتماد کے معاملے میں بھی انہی قوتوں کے ساتھ کھڑی ہوگی جو ملک اور بالخصوص کراچی کے حقوق کے لیے کام کریں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تحریک عدم اعتماد کے بارے میں ایم کیو ایم سے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے ۔ اور اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنے میں پارٹی کو بھی جلدی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم مورثی سیاست کرنے والوں کے خلاف ہی کھڑی ہوگی۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وزیرِ اعظم کے ساتھ ہیں، اسی لیے تو وہ وزیراعظم ہیں۔
ملاقات میں شریک تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی سیف الرحمٰن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملاقات میں ایم کیو ایم نے اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اس حمایت پر میٹنگ کے دوران کوئی مطالبات سامنے نہیں رکھے گئے۔
ملاقات کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم سے ملاقات میں تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ انہوں نے نہ کوئی یقین دہانی مانگی اور نہ ہی ایم کیو ایم نے کوئی یقین دہانی کرائی ہے۔
عمران خان کراچی آمد کے بعد بذریعہ ہیلی کاپٹر نیشنل اسٹیڈیم پہنچے جہاں سے وہ گاڑیوں کے قافلے میں ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر پہنچے۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم حالیہ دنوں میں کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں ترقیاتی کام نہ ہونے پر آواز اٹھاتی رہی ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق ایم کیو ایم کے دفتر کے دورے کے بعد وزیرِ اعظم نے حکومت کی اتحادی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے رہنماؤں سے سندھ کے گورنر ہاؤس میں ملاقات کی ۔
قبل ازیں وزیرِ اعظم عمران خان نے لاہور کا دورہ کیا تھا کیوں کہ یہ شہر گزشتہ کئی روز سے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ منگل کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کرا دی ہے۔
تحریکِ عدم اعتماد: عددی اکثریت کس کے پاس ہے؟
مبصرین تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے قومی اسمبلی میں نمبرز گیم کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔
اس وقت اپوزیشن جماعتوں کو تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 50 فی صد سے زائدارکانِ اسمبلی کے ووٹ درکار ہیں جو 172 بنتے ہیں۔
اس وقت قومی اسمبلی میں تحریکِ انصاف کی حکومت کے پاس 155 نشستیں ہیں جب کہ ایم کیو ایم کے سات اراکین، مسلم لیگ (ق) کے پانچ، بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کےتین اراکین، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کا ایک ایک رکن جب کہ دو آزاد اراکین کی حمایت حاصل ہے جن کی کل تعداد 179 ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن کے پاس 162 نشستیں ہیں جن میں 84 مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کی 56، متحدہ مجلس عمل کی 15، بی این پی مینگل کی چار، عوامی نیشنل پارٹی کی ایک نشست اور دو آزاد اراکین شامل ہیں۔
اپوزیشن کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انہیں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کئی ارکان کی خاموش حمایت حاصل ہو چکی ہے جو ایوان میں وزیرِ اعظم پر عدم اعتماد کے لیے ووٹ دیں گے۔ مبصرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اس معرکے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔دوسری طرف حکومتی ارکان بھی اس اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں، کہ حزب اختلاف کو مطلوبہ ووٹ نہیں مل سکیں گے۔ ووٹنگ تک یہ سیاسی منظر نامہ غیر واضح ہی رہتا نظر آرہا ہے۔