ایمیزون کے گھنے جنگلات تباہی کے دہانےپر، ماہرین

فائل فوٹو

پیر کے روز ایک جاری ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق ،آب و ہوا کے تغیر سے تباہی اور جنگلوں کی بےرحمانہ کٹائی سے ایمیزون کے گھنے جنگلات اب اپنی اصؒل صورت میں واپسی کی صلاحیت کھو رہے ہیں اور ایک صحرا میں تبدیل ہو رہے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔ اس تبدیلی کےنتائج خطّے اور دنیا کے لیے انتہائی تباہ کن ہو ں گے

تحقیق کار متنبہ کر رہے ہیں کہ ایمیزون ،توقع سے زیادہ تیزی کے ساتھ اپنی تباہی کے دہانے کی جانب بڑھ رہا ہے۔

ریسرچرز نے پہلی مرتبہ،سٹلائٹ کے 25 سالہ اعدادو شمار کا مطالعہ کرتے ہوئے ،ایمیزون میں آنے والے زلزلوں کے جھٹکوں،خشک سالی اور جنگلا ت میں بھڑک اٹھنے والی آتشزدگی سے گزرنے کے بعد سے اپنی اصل شکل و شبہات میں بحال ہونے کی قوت کا جائزہ لیا۔

جریدے ،نیچر کلائمیٹ چینج میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ،تحقیق کاروں کا کہنا تھا ، ایمیزون وادی میں ،جو دنیا کے آدھے سے زیادہ گھنے جنگلات کا گھر ہے ، سانحات سے گزرنے کے بعد ان جنگلات میں اپنی بحالی قوت بتدریج کم ہوتے ہوتے اب تین چوتھائی سے بھی کم رہ گئی ہے۔

رپورٹ کے شریک مصنف ،ٹم لینٹن نے ،جو یونیورسٹی آف ایگزرٹر کے گلوبل سسٹم انسٹی ٹیوٹ میں ڈائرکٹر ہیں ،اے ایف پی کو بتایا کہ وہ علاقے جو خشک سالی سے شدید تباہی کا شکار ہوئے ہیں ،وہاں ،جنگلوں کی بحالی کی صلاحیت ،تقریباً نصف رہ گئی ہے۔ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ جنگلات کے ان علاقوں میں، جو انسانی سر گرمیوں کے قریب ہیں یا جو بہت زیادہ خشک ہیں، بحالی سے متعلق ہمارا پیمانہ ،ایک یا دو وجوہات سے تبدیل ہو ا ہے۔

آب و ہوا کی تبدیلی ظاہر کرتی ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ،جس نے زمین کی سطح کو ،صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں ،اوسطاًایک اعشاریہ ایک درجے سیلسیس تک گرم کر دیا ہے، وہ صحرا جیسی خشک ریاستوں میں ،ایمیزون کو ایک ایسے مقام تک لا سکتا ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔

کچھ اور جائزوں کے مطابق،اگر کاربن کے اخراج کی آلودگی جاری رہتی ہے،تو یہ منظر بمشکل وسط صدی تک جاری رہ سکتا ہے۔

لینٹن کا کہنا تھا کہ یہ صرف آ ب و ہوا کی تبدیلی کا ہی معاملہ نہیں ہے، بلکہ لوگ بھی جنگلوں کو کاٹنے اور جلانے میں مصروف ہیں،جو جنگلات پر دباؤ کی دوسری وجہ ہے۔خدشات یہ ہیں کہ یہ دونوں چیزیں مل کر ایمیزون کے عظیم جنگلاتی سلسلے کو تباہی میں دھکیل سکتی ہیں۔

ایمیزون کے علاوہ ،گرین لینڈ اور مغربی قطب جنوبی کی برف کی تہیں،سائبیریا کی کاربن اور میتھین گیس سے ڈھکی برف ،جنوبی ایشیا کی مون سون بارشیں وغیرہ، یہ تمام تبدیلی کے ایسے نکتے پر پہنچ رہے ہیں ،جو دنیا کو یکسر تبدیل کر سکتا ہے۔

لینٹن کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہےکہ بچاؤ کا کوئی ایسا راستہ بھی ہو جو ایمیزون کو مکمل تباہی کے دھانے سے واپس لا سکے، کیونکہ گھنے جنگل ،قدرتی طور پر بحالی کی بے پناہ قوت رکھتے ہیں ،آخر انہوں نے برسوں تک شدید برف کا مقابلہ کیا ہے۔اگر آپ کسی طرح درجہ حرارت کو نیچے لاسکیں ،تو آخری نکتے تک پہنچنے کو باوجود آپ صورت حال پر قابو پا سکتے ہیں۔

(خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)