اسرائیلی فوج نے بدھ کو کہا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسندوں نے غزہ شہر کے ایک گنجان علاقے میں اسرائیلی فوجیوں پر گھات لگا کر حملہ کیا جس میں کم از کم 10فوجی ہلاک ہو گئے۔
حماس نے ان علاقوں میں سخت مزاحمت کی ہے جن پر اسرائیل نے دو ماہ سے زیادہ عرصے سے تقریبأ مسلسل بمباری اور گولہ باری جاری رکھی ہے۔
اسرائیلی فوج نے ان ہلاکتوں کے بارے میں بتایا کہ منگل کو شجائیہ میں عمارتوں کی تلاشی لینے والے فوجیوں کا رابطہ ان چار فوجیوں سے منقطع ہو گیا جو فائرنگ کی زد میں آ گئے تھے۔
جب دوسرے فوجیوں نے ریسکیو آپریشن شروع کیا تو ان پر گھات لگا کر بھاری فائرنگ ہوئی اور دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا ۔ ہلاک ہونے والے نو فوجیوں میں سینئر افسر 44 سالہ کرنل اِتزاک بن باسات اور ایک بٹالین کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل ٹومرگرن برگ شامل ہیں۔
اس فضائی اور زمینی جنگ میں ہزاروں فلسطینی شہریوں کی جان گئی ہے اور غزہ کی تقریباً 85 فیصد آبادی کو بے گھر کر دیا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
اسرائیل حماس جنگ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منگل کو غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے مطالبے کے حق میں اکثریت سے ووٹ دیا ہے
امریکہ نے بارہا اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہریوں کو بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ اقدامات کرے اگرچہ اس نے جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی مطالبات کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہے اور اپنے قریبی اتحادی کو فوجی امداد بھی دی ہے۔
حماس کے7 اکتوبر کو کئے گئے حملے کے تناظر میں غزہ کے شمال میں اسرائیل کی زمینی فوج کے دستوں اور فلسطینی جنگجوؤں کےدرمیان اب بھی غزہ شہر اور اس کے اطراف میں شدید لڑائی جاری ہے۔
متعدد علاقوں میں دن میں اور رات کو اور جھڑپیں ہوئیں۔ ان میں خاص طور پر گنجان آباد علاقے شجائیہ میں شدید لڑائی کی اطلاع ہے۔
یہ علاقہ اسرائیل اور حماس کے درمیان 2014 کی جنگ کے دوران بھی ایک بڑی لڑائی کا مرکز رہا تھا۔شجایئہ کے ایک فلسطینی مکین اور کسان مصطفی ابوطحہ نے فون پر بتایا ہے کہ ’’یہ کارروائی خوفناک ہے۔ ہم سو نہیں سکے۔ صورتحال بدتر ہوتی جا رہی ہے اور ہمارے پاس کوئی محفوظ جگہ بھی نہیں ہے۔‘‘
جنوبی علاقے میں مصائب
غزہ کے جنوب میں رات بھر ہونے والی موسلا دھار بارش نے ان خیموں کو پانی سے بھر دیا جہاں فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی ہے۔۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیل نے لوگوں کو پناہ لینے کے لیے کہا ہے۔ اگر چہ یہ مقام بھی بار بار فضائی بمباری کی زد میں آیا ہے۔
وسطی شہر دیر البلاح میں طوفان کے ساتھ ٹھنڈی ہوائیں چلیں اور ایک ہسپتال کے پیچھے واقع ایک پناہ گاہ کے علاقے میں سیلاب آ گیا۔ تیرہ بچوں کے باپ ابراہیم عرفات شجائیہ سے بھاگ کر یہاں آئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’صورتحال تباہ کن ہے۔‘‘
علاقے میں جاری لڑائی اور اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ کے بڑے حصے میں صحت کی دیکھ بھال کا نظام اور انسانی امداد کی کارروائیاں ختم ہو گئی ہیں۔ امدادی کارکنوں نے بے گھر ہونے والے لوگوں میں بھوک اور بیماری کے پھیلاؤ سے متعلق خبردار کیا ہے۔
اسرائیل نے رات گئے جنوبی صوبے خان یونس میں دو رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا جہاں اسرائیلی زمینی افواج نے اس ماہ کے شروع میں ایک نئی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
SEE ALSO: غزہ میں کوئی علاقہ محفوظ نہیں، اقوام متحدہخان یونس اور جنوبی سرحدی شہر رفح کے درمیان مرکزی شاہراہ کے قریب ایک گھر پر ہونے والے حملے میں 2 اور 8 سال کی عمر کے دو لڑکے، ایک 80 سالہ خاتون اور 30 سال کی خاتون ہلاک ہو گئی۔ ہلاک ہونے والے ان افراد کے ایک عزیز محمد البیووک نے یہ اطلاع دی۔
خان یونس کے ناصر ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق ایک اور حملے میں ایک بچہ اور اس کے دادا ہلاک ہو گئے۔
اسرائیلی فوج انفرادی حملوں پر شاذ و نادر ہی تبصرہ کرتی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ شہریوں کو نقصان سے بچانے کی کوشش کرتا ہے اور زیادہ ہلاکتوں کے لیے حماس پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ رہائشی علاقوں میں جنگجوؤں، سرنگوں اور ہتھیاروں کو رکھتا ہے۔
صدر بائیڈن کیا کہتے ہیں
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے منگل کو کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو بتایا ہے کہ اسرائیل اپنی ’’اندحا دھند بمباری‘‘ کی وجہ سے بین الاقوامی حمایت کھو رہا ہے اور نیتن یاہو کو اپنی حکومت کو تبدیل کرنا چاہئیے جس پر انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا غلبہ ہے۔
لیکن یہ جنگ ایک ایسی جنگی کابینہ کے تحت لڑی جا رہی ہے جس میں دو ریٹائرڈ جنرل شامل ہیں اور انہیں سیاسی منظر نامے میں اسرائیلیوں کی زبردست حمایت حاصل ہے۔
اسرائیل میں اب بھی توجہ کا محور7 اکتوبر کو ہونے والے مظالم ہیں جب تقریباً 1,200 افراد مارے گئے تھے۔ان میں زیادہ تر عام شہری تھے جبکہ تقریباً 240 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا جن میں سے تقریباً نصف بدستور قید میں ہیں۔
فوج کا کہنا ہے کہ زمینی کارروائی میں 115 فوجی مارے گئے ہیں۔ میڈیا پر غزہ میں شہریوں کی حالت زار کے بارے میں بہت کم کوریج یا عوامی بحث ہوئی ہے حالانکہ بین الاقوامی سطح پر غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل 'اندھا دھند بمباری' کے باعث بین الاقوامی حمایت کھو رہا ہے: بائیڈناقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منگل کو بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی جس میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ غیر پابند ووٹ علامتی تھا لیکن یہ عالمی رائے کی عکاسی کرتا ہے۔ کوئی بھی بڑی طاقت اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ شامل نہیں ہوئی۔
امریکہ نے بھی اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے کیونکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
حماس کے زیر اقتدار غزہ میں وزارت صحت کے مطابق 18,400 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ مرنے والوں میں سے تقریباً دو تہائی خواتین اور نابالغ افراد ہیں
SEE ALSO: خان یونس اور غزہ کے دو مضافات میں اسرائیل اور حماس کی ز بردست لڑائیبعد از جنگ کے منصوبوں پر اختلاف
اسرائیل اور امریکہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی ایسی نوعیت کی جنگ بندی حماس کی فتح ہو گی اگر عسکریت پسند گروپ کو اقتدار پر بحال کر دیا جاتا ہے۔ حماس 2007 سے غزہ پر حکومت کرتی ہے اور اس گروپ نے اسرائیل کو تباہ کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ لیکن دونوں اتحادی اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ اگر حماس کو شکست ہوتی ہے تو پھر صورتحال کیا رہے گی۔
امریکہ امن کے اس عمل کو بحال کرنے کی امید رکھتا ہے جو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل رک گیا تھا۔ وہ چاہتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی غزہ پر بھی حکومت کرے جسے حماس نے 2007 میں اس سے لے لیا تھا۔ اس وقت فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے ۔.
لیکن فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس انتہائی غیر مقبول ہیں جس کی ایک جزوی وجہ اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی تعاون ہے اور انہوں نے غزہ میں کسی بھی طرح کی واپسی کو اس صورت میں مسترد کر دیا ہے جو فلسطینی ریاست کی تشکیل سے ہٹ کر ہو۔ دوسری جانب نیتن یاہو کی حکومت فلسطینی ریاست کی سختی سے مخالفت کرتی ہے۔
اس رپورٹ کی تفصیل خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہے۔