طالبان راہنما ملا عبدالسلام ضعیف نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ان پانچ ماہ کے دوران کسی بھی شخص کو ہلاک نہیں کیا گیا، اس وقت یہاں ایک حکومت ہے، یہاں کوئی 'طوائف الملوکی' نہیں ہے، لیکن معاشی صورت حال اچھی نہیں ہے، اسے بہتر بنانا صرف افغانستان کی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی کمیونٹی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی مدد کرے۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے وحید فیضی کے ساتھ ایک انٹرویو میں پاکستان کے لیے سابق افغان سفیر ملا ضعیف نے کہا کہ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ طالبان نے سابق افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے چند اہل کاروں کو ہدف بنایا تھا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ طالبان راہنماؤں کو طالبان جنگجوؤں کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سے بچنا چاہیے۔
امریکہ سے سمجھوتے کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان نے اپنی قانونی حیثیت اور بین الاقوامی طور پر تسلیم کیے جانے کی کوششیں کی ہیں۔ لیکن بقول ان کے، ابھی تک امریکہ کے ساتھ مسئلہ ہے اور طالبان ابھی تک امریکہ کے ساتھ کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچ سکے جس کی وجہ سے مثبت نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔
ملا ضعیف کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ اور طالبان کے درمیان سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو باقی دنیا طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لے گی۔
خواتین کے روزگار اور تعلیم پر کام ہو رہا ہے
خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہوئے طالبان راہنما نے کہا کہ فی الحال خواتین کے کام کرنے کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔ طالبان اب بھی یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اسلامی شریعت کے تحت خواتین کے کام کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔
کابل میں ہونے والے خواتین کے مظاہروں پر ان کا کہنا تھا کہ ''ان کا مطالبہ مغرب جیسے حقوق کا حصول تھا''۔
افغان عوام کی امنگوں کی ترجمان حکومت بنائیں گے
عالمی برادری کی جانب سے افغانستان میں ایک جامع حکومت کے قیام کے لیے اصرار پر ملا ضعیف کا کہنا تھا کہ ان کا نہیں خیال کہ طالبان بین الاقوامی برادری کی خواہشات کے مطابق کوئی اس طرح کی حکومت بنائیں گے بلکہ وہ ایک ایسی حکومت قائم کریں گے جو افغان عوام کی امنگوں کے مطابق ہو۔
ملا عبدالسلام ضعیف نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ طالبان، مذاکرات اور اپنے اقتدار کے قانونی جواز کے لیے ایک کونسل کے قیام پر کام کر رہے ہیں۔ وہ خواتین کو ملازمتوں کے مواقع اور تعلیم فراہم کرنے پر بھی کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے طالبان کو درپیش مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کچھ طالبان ارکان اپنے خاندان افغانستان نہیں لائے، لیکن طالبان راہنما اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جو بھی اس ملک کے اندر کام کرنا چاہتا ہے، اسے اپنے اہل خانہ کو بھی یہاں لانا چاہیے۔
کابل میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاری
ملا عبدالسلام ضعیف طالبان کے سابق دور میں پاکستان میں سفیر رہ چکے ہیں اور انہیں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد گرفتار کر کے گوانتاناموبے لایا گیا تھا تاہم سال دو ہزار دس میں دہشتگردوں کی فہرست سے ان کا نام نکال دیا گیا تھا۔
سابق طالبان سفیر نے یہ گفتگو ایسے وقت میں کی ہے جب افغانستان کے اندر گزشتہ اگست میں طالبان کے کنٹرول کے بعد بین الاقوامی برادری اور حقوق کے ادارے ملک میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے ضمن میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کے ریورس ہونے کی بات کر رہے ہیں اور ملک کے اندر موجود سابق افغان سکیورٹی عہدیداروں کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسی طرح ملک کو شدید معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے کیونکہ طالبان کی طرف سے کسی مشمولہ یا کثیر فریقی حکومت کے قیام کے لیے کوئی ٹھوس قدم سامنے نہیں آیا ہے۔۔
دوسری جانب کابل میں طالبان حکام نے انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن عظیم عظیمی اور تین دوسرے افراد کو منگل کے روزپاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کے کابل کے دورے کے خلاف کابل میں احتجاجی مظاہرہ ترتیب دینے پر حراست میں لے لیا۔
کابل میں پاکستان کے سفارت خانے نے بتایا ہے کہ خراب موسمی حالات کی بنا پر معید یوسف کا دورہ ملتوی کر دیا گیا تھا۔
عظیمی نے پیر کے روز ٹوئٹر پر اپنے مظاہرے کے پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے طالبان راہنماؤں سے اپیل کی تھی کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔
عظیمی کے ساتھ حراست میں لیے جانے والے باقی تین سرگرم کارکنوں میں احمد شاہ، عبدالکریم بلال اور حیات اللہ روفی شامل ہیں۔
انسانی حقوق کے ایک اور کارکن عنایت اللہ عزیززادہ نے وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس کو ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں بتایا کہ ہمارے دوستوں نے کابل کے ضلع شاہ درک ٹو میں طالبان کو عظیمی اور دوسرے کارکنوں کو گرفتار کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
طالبان پولیس ہیڈکوارٹرز کے میڈیا چیف جنرل مبین خان نے ٹوئٹر پر اپنے جواب میں کہا کہ وہ اس بارے میں معلومات اکھٹی کر کے جواب دیں گے۔
افغان پیس واچ کے سربراہ نے وی او اے ڈیوا کو بتایا کہ وہ گرفتاری سے قبل تک عظیمی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم طالبان سے انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کی اپیل کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عظیمی نے یہ واضح کیا تھا کہ ان کا احتجاج طالبان کے خلاف نہیں تھا بلکہ پاکستان کے خلاف تھا۔
افغانستان میں پاکستان اور اس کے اعلیٰ عہدے داروں کے کابل کے دورے کے موقع پر مظاہرے ہوتے رہتے ہیں جن میں مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔
پاکستانی حکام افغانستان کے امور میں مداخلت یا طالبان کی مدد کرنے کے الزامات کو مسترد کرتے آ رہے ہیں۔