بھارت کی ریاست اترپردیش کی ایک عدالت نے محکمہ آثار قدیمہ کو حکم دیا ہے کہ وہ بنارس میں ایک مندر سے متصل مسجد کا سروے کر کے رپورٹ دے کہ کیا مندر کے کچھ حصے کو منہدم کر کے وہاں مسجد تعمیر کی گئی تھی یا نہیں۔
دائیں بازو کی ہندو تنظیموں کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ بنارس میں واقع کاشی وشو ناتھ مندر سے متصل گیان واپی مسجد پہلے مندر کا ہی حصہ تھی جسے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے کہنے پر منہدم کر کے یہاں مسجد تعمیر کی گئی۔
خیال رہے کہ بنارس وزیرِ اعظم نریندر مودی کا حلقۂ انتخاب ہے۔
ایودھیا کی بابری مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کی طرح اس عبادت گاہ پر بھی صدیوں سے تنازع چلا آرہا ہے۔
مسلمان تنظیموں کی جانب سے اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
سول جج آشوتوش تیواری نے چند روز قبل ایک وکیل وجے شنکر رستوگی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے محکمہ آثار قدیمہ کو ہدایت دی کہ وہ سروے سے قبل ایک پانچ رُکنی کمیٹی بنائے جس میں اقلیت سے بھی دو افراد کو شامل کیا جائے۔
عدالت کے مطابق صرف محکمہ آثار قدیمہ کا سروے ہی عدالت کے سامنے حقائق لا سکتا ہے جس سے ہندو اور مسلمانوں دونوں کی تشفی ہو جائے گی اور یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سن 1991 میں بھی ہندوؤں نے عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اُنہیں مسجد کے اندر پوجا کی اجازت دی جائے۔ لیکن الہ آباد ہائی کورٹ نے اس پر حکمِ امتناع جاری کر دیا تھا۔
لیکن درخواست گزار وجے شنکر رستوگی نے دسمبر 2019 میں مقامی سول عدالت میں اپیل دائر کی اور مسجد کے سروے کا مطالبہ کیا۔
خیال رہے کہ نومبر 2019 میں اسی نوعیت کے مشہورِ مقدمے میں بھارت کی سپریم کورٹ نے ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین ہندوؤں کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا جب کہ مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ متبادل زمین دینے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔
رستوگی نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سروے کے بعد حقیقت سب کے سامنے آ جائے گی۔
ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد کے ترجمان ونود بنسل نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اس عدالتی حکم سے سچ سامنے آئے گا اور اب مندر کو واگزار کرانے کا راستہ کھل گیا ہے۔
'ماتحت عدالت کو اس معاملے میں مداخلت کا اختیار نہیں'
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ چوں کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیرِ التوا ہے اس لیے نچلی عدالت کو اس پر سماعت کرنے کا حق نہیں تھا۔
سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل اے رحمان ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پارلیمنٹ نے 1991 میں "پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991" کے نام سے ایک قانون بنایا تھا جس کے مطابق 1947 میں جو عبادت گاہ (بابری مسجد کو چھوڑ کر) جس حالت میں تھی وہ اسی حالت میں رہے گی۔ اس پر کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا اور اگر کہیں کوئی دعویٰ ہے تو وہ خودبخود کالعدم ہو جائے گا۔"
ان کے مطابق یہ حکم اس قانون کے خلاف ہے اور سپریم کورٹ نے بابری مسجد مقدمے میں جو فیصلہ سنایا تھا اس کے بھی منافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گیان واپی مسجد کو بابری مسجد بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مسلم تنظیموں کا اعلٰی عدلیہ سے رُجوع کا اعلان
اے رحمان کے مطابق ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے تین ہزار مسجدوں پر مندر ہونے کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ اس لیے گیان واپی مسجد کی لڑائی پوری قوت سے لڑنا پڑے گی ورنہ اگر اس میں انہیں کامیابی مل گئی تو ان کے حوصلے بلند ہو جائیں گے اور پھر وہ دوسری مسجدوں کا بھی مطالبہ کریں گے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقامی مسجد کمیٹی اور سنی وقف بورڈ اسے ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ کاشی وشوناتھ مندر اور گیان واپی مسجد ایک دوسرے سے متصل ہیں اور اس تنازع کے پیشِ نظر وہاں سیکیورٹی کے بھی خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
مقامی باشندوں نے چند روز قبل وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سخت سیکورٹی کی وجہ سے مسجد میں بہت کم نمازی آتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ کاشی وشو ناتھ مندر تک رسائی کے لیے نئے کوریڈور بنائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے کئی مندروں کو گرایا گیا ہے اور اب یہ خدشہ ہے کہ اس کی آڑ میں مسجد کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔