|
کراچی میں 19 اگست کو تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے والد اور بیٹی کی جان لینے کے واقعے کی ملزمہ خاتون کے خلاف منشیات استعمال کرنے سے متعلق ایک اور مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
لیکن سماجی حلقوں کی جانب سے سوال اب بھی یہ اٹھایا جارہا ہے کہ کیا اس کیس کا اختتام بھی کئی دیگر کیسز کی طرح صلح نامے پر ہوگا یا ایک انتہائی با اثر خاندان سے تعلق رکھنے والی ملزمہ کو قانون کے تحت سزا ملے گی۔
پولیس نے ملزمہ نتاشا دانش پر درج کیے گئے مقدمے میں الزام عائد کیا ہے کہ ملزمہ کے خون اور یورین کے ٹیسٹ سے معلوم ہوا ہے کہ اس نے میتھافیٹامائین (آئس) کا نشہ کیا ہوا تھا۔
اس مقدمے پر عدالت نے تفتیشی افسر کو ملزمہ سے تفتیش کی اجازت بھی دے دی ہے۔ تاہم بعض وکلا دوسرے مقدمے میں امتناع منشیات پروبیشن آف حد (حدود آرڈیننس) 1979 کی دفعات شامل کرنے پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں۔
ادھر کیس کے مدعی اور واقعے میں ہلاک ہونے والے ہونے والے 62 سالہ عمران عارف کے بھائی امتیاز عارف پولیس کی جانب سے اب تک کی کارروائی پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔
اس واقعے میں عمران عارف کی 22 سالہ بیٹی آمنہ عارف کی بھی موت ہوئی تھیں۔
مدعی امتیاز عارف کا کہنا ہے کہ شروع میں تو پولیس کا رویہ انتہائی مایوس کُن اور سرد تھا۔ لیکن اب پولیس نے کافی تندہی سے اس کیس میں تفتیش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈی آئی جی ضلع شرقی اظفر مہیسر نے جو وعدہ کیا تھا اس کے تحت ہی ملزمہ کے خلاف کارروائی آگے بڑھ رہی ہے۔
اس سوال پر کہ کیا ملزمہ کے خاندان سے ان کا کوئی رابطہ ہوا ہے؟
امتیاز عارف کا کہنا تھا کہ نتاشا کے خاندان کی کچھ خواتین تعزیت کے لیے ہمارے گھر آئی تھیں۔ یہ صرف تعزیتی ملاقات تھی اور اس مختصر سے ملاقات میں اس دوران کسی اور موضوع پر کوئی بات نہیں۔
انہوں نے مزید سوالات کا جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ فیملی کی جانب سے اس موضوع پر زیادہ بات کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
ملزمہ کے وکیل عامر منسوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایک بار پھر دہرایا کہ ملزمہ نفسیاتی مریضہ ہے اور 19 سال سے اس کا علاج چل رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود کہ یہ ایک حادثہ ہے، ملزمہ اور اس کی فیملی، غم زدہ خاندان سے معافی مانگنے اور ان کو مالی معاوضے کی ادائیگی کے لیے تیار ہے اور قانون بھی اس بات کی اجازت دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دانش مندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہ معاملہ اسی طرح حل ہوسکتا ہے۔ متاثرہ خاندان کا قانونی حق ہے کہ وہ دیت حاصل کرسکتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ ملزمہ کے پاس گاڑی چلانے کا لائسنس بھی نہیں تھا۔ تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ برطانوی شہریت اور گاڑی چلانے کے لیے برطانوی لائسنس کی حامل ہیں اور پاکستان میں چھ ماہ تک اس لائسنس پر گاڑی چلانا درست مانا جاتا ہے۔
ایک اور مقدمہ درج
پولیس کی جانب سے اسی واقعے کی دوسری ایف آئی آر کے اندراج اور اس میں ملزمہ پر آئس کے استعمال کے الزامات شامل کرنے پر نتاشا کے وکیل کا کہنا ہے کہ جس سیکشن کے تحت یہ ایف آئی آر درج کی گئی اس کے تحت شراب پی کر گاڑی چلانا قابل گرفت ہے اور اس میں آئس کا کوئی تذکرہ نہیں۔ وہ اس ایف آئی آر کے خلاف قانونی نکات عدالت میں پیش کریں گے۔
اسی طرح کا موقف بعض دیگر وکلا کی جانب سے بھی سامنے آیا ہے۔ انسانی حقوق کے معروف کارکن اور وکیل جبران ناصر نے بھی امتناع منشیات حدود آرڈیننس کی دفعات شامل کرنے پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ میتھا فیٹامین (آئس/کرسٹل میتھ) نارکوٹکس کنٹرول ایکٹ 1997 کے تحت ایک شیڈولڈ ممنوعہ منشیات ہے اور نشہ آور اشیا کے کنٹرول کے ترمیمی ایکٹ 2022 کے تحت جرم ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کے نشے کے زیر اثر گاڑی چلانا صوبائی موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 کی دفعہ 100 کے تحت بھی جرم ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کارساز کیس میں حدود آرڈیننس کا اطلاق کیوں کیا گیا کیوں کہ اس قانون کا اطلاق اسی وقت ہوتا ہے جب کوئی ایسی دوا کھائی جائے جو 1979 کے آرڈر کے شیڈول میں بیان کی گئی ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت ایسی نشہ آور اشیا بھی آسکتی ہیں جو بعد میں وفاقی یا صوبائی حکومت کے نوٹیفکیشن کے ذریعے شیڈول آف دی آرڈر میں شامل کی گئی ہوں۔ اسی صورت میں متعلقہ کا اطلاق ہوتا ہے اور اس شیڈول میں شراب تو شامل ہے لیکن میتھا فیٹامین شامل نہیں ہے۔
پولیس افسران نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسی کیس میں مزید دفعات درج کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے جس کے تحت مقدمے میں موٹر وہیکل آرڈیننس کی دفعات شامل کی جائیں گی۔
دوسری جانب ملزمہ کے شوہر اور گاڑی کے مالک دانش اقبال کو سات روزہ حفاظتی ضمانت مل گئی ہے اور انہیں متعلقہ عدالت میں ایک ہفتے میں حاضر ہوکر تفتیش میں پولیس سے تعاون کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ماضی کے کیسز
کارساز پر پیش آنے والے واقعے کے بعد سے یہ کیس پاکستان میں سوشل میڈیا پ زیر بحث رہا ہے اور اس کے کئی پہلوؤں پر گفتگو ہورہی ہے جبکہ بعض گمراہ کن اور غلط معلومات پر مبنی مواد بھی گردش میں ہے۔
کارساز کیس کو ایسے دیگر کیسز سے جوڑا جارہا ہے جس میں ملزمان یا تو سزا سے بچ نکلے یا پھر لواحقین کو دیت ادا کرکے قاتل سزا سے بچ نکلے۔
اس سلسلے میں جون 2017 میں کوئٹہ میں رکن صوبائی اسمبلی مجید خان اچکزئی کی گاڑی کی ٹکر سے پولیس کانسٹیبل کی ہلاکت کا حوالہ بھی دیا جارہا ہے۔
SEE ALSO: سابق رُکن اسمبلی مجید اچکزئی کی بریت کے خلاف اپیل کا فیصلہمجید اچکزئی واقعے کے بعد موقعے سے فرار ہوگئے تھے اور بعد ازاں اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی تھی۔
عدالت میں کیس چلا تو مجید خان اچکزئی کچھ دن جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوگئے اور ستمبر 2020 میں عدالت نے ناکافی شواہد کی بنا پر انہیں بری کردیا تھا۔
اسی طرح 2012 میں کراچی کے علاقے کلفٹن میں انتہائی بااثر خاندان سے تعلق رکھنے والے شارخ جتوئی نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ شاہ زیب نامی نوجوان کو قتل کردیا تھا۔
اس کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت سے سزائے موت ہونے کے باوجود ملزمان نے شاہ زیب کے والدین سے صلح کر لی تھی جس کی بنا شاہ رُخ جتوئی سزا سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
SEE ALSO: شاہ رخ جتوئی کی بریت: 'یہ جرم ایک شخص نہیں بلکہ معاشرے کے خلاف تھا'نومبر 2021 میں سامنے آنے والے ناظم جوکھیو کیس کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔ ناظم جوکھیو کی لاش رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم بجار کی حویلی سے برآمد ہوئی تھی۔ جوکھیو نے جام کے عرب مہمان کو ٹھٹھہ میں نایاب پرندوں کے شکار سے روکا تھا اور اس پر سوشل میڈیا مہم چلائی تھی۔
جام عبدالکریم اور ان کے بھائی جام اویس کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت میں کیس چلا جو کچھ عرصے بعد دو طرفہ جھگڑا قرار دے کر سیشن کورٹ منتقل کردیا گیا۔
بعدازاں ناظم جوکھیو کی بیوہ سے معافی اور اس کی مالی مدد پر کیس ختم ہوگیا اور جام عبدالکریم پھر سے رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوگئے۔
SEE ALSO: ناظم جوکھیو قتل کیس: پولیس نے ارکان اسمبلی جام کریم اور جام اویس کو بے قصور قرار دے دیاناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں نے اپنی ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ اس پر دباؤ ڈال کر ملزمان کو معافی دینے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس نے اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے کیا سب کچھ کیا تھا۔
حالیہ برسوں میں اس طرح کے کئی دیگر کیسز کا کانجام بھی کچھ اسی طرح ہوا ہے۔
’ریاست مدعی بنے‘
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کیسز ثابت کرتے ہیں کہ سنگین ترین جرم میں بھی اگر جرم کرنے والا کسی بااثر خاندان سے تعلق رکھتا ہو تو پہلے اس جرم کی نوعیت تبدیل کی جاتی ہے۔ پھر ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں کہ متاثرہ خاندان والوں کو صلح صفائی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول اس طرح در اصل ریاست کے خلاف جرائم کو ذاتی لڑائی قرار دے کر دیت کے قانون کا سہارا لیا جاتا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر تشویش ہے، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستانالبتہ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ دیت کا تقاضا کرنا حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کا قانونی حق ہے لیکن انہیں اس پر مجبور نہین کیا جاسکتا
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سابقہ چئیر پرسن زہرا یوسف کا کہنا ہے کہ ریاست کو اس کیس میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے چاہییں۔
ان کا کہنا تھا کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ریاست کو خود یہ کیس لڑنا چاہیے اور نشے میں انتہائی لا پروائی سے گاڑی چلانے کے معاملے میں مدعی بن کر عدالت میں ناقبل تردید شواہد پیش کرنے چاہییں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کو ایک مثال بنانا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرأت نہ کرسکے۔ اس کے علاوہ متاثرہ خاندان کی معاشی کفالت بھی ریاست کی ذمے داری ہے۔