ٹیکنالوجی کمپنی ’ایپل‘ کی جانب سے بھارت کے ایک درجن سے زائد اپوزیشن رہنماؤں کو ’اسٹیٹ ایکٹرز‘ کی جانب سے ان کے فونز کی ممکنہ ہیکنگ کی وارننگ آنے کے بعد ایک سیاسی تنازع پیدا ہو گیا ہے۔
حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ حکومت ان کی جاسوسی کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جب کہ حکومت نے اس الزام کی تردید کی ہے اور معاملے کی تحقیقات کا وعدہ کیا ہے۔
بعض اپوزیشن رہنماؤں کے مطابق یہ معاملہ ملک کے جمہوری مفادات پر حملہ ہے۔
اُنہوں نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر لوگ آپ کے خلاف ہیں تو آپ ان کی جاسوسی کرا کے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر اشونی ویشنو نے اپوزیشن کے الزام کو کمتر درجے کی سیاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ حزبِ اختلاف کے رہنما ملک کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔
واضح رہے کہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے بدھ کو دعویٰ کیا کہ ایپل کمپنی کی جانب سے ان کو وارننگ دی گئی ہے کہ 'اسٹیٹ ایکٹرز' ان کے آئی فون کو ہیک کر سکتے ہیں۔ متعدد رہنماؤں نے وارننگ کے اسکرین شاٹس بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیے۔
وارننگ میں کیا ہے؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق کانگریس کے رکن پارلیمان ششی تھرور، سینئر رہنما کے سی وینوگوپال، کانگریس کی سوشل میڈیا ہیڈ سپریہ شرینیت، پارٹی ترجمان پون کھیڑہ سمیت کئی رہنماؤں کو یہ وارننگ موصول ہوئی تھی۔
اس وارننگ میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ ایکٹرز آئی فون کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ایپل کا خیال ہے کہ آپ کو انفرادی طور پر نشانہ بنایا جا سکتا ہے کہ آپ کون ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ یہ اسٹیٹ ایکٹرز آپ کے حساس ڈیٹا اور یہاں تک کہ آپ کے کیمرے اور مائیکروفون تک دور سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر چہ یہ اطلاع غلط ہو سکتی ہے لیکن اسے سنجیدگی سے لیں۔
مذکورہ رہنماؤں نے وارننگ ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے حکومت پر تنقید کی۔
سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے ایک پریس کانفرنس کر کے کہا کہ حکومت جتنا چاہے ان کا فون ٹیپ کر سکتی ہے۔ وہ اس سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ حکومت ان کا فون لینا چاہتی ہے تو وہ بھی لے لے۔
ایپل اہل کاروں کی طلبی پر غور
دریں اثنا خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی اس معاملے پر غور و خوض کرنے کے لیے جلد ہی ہونے والی میٹنگ میں ایپل کمپنی کے اہل کاروں کو طلب کرنے پر غور کر رہی ہے۔ کمیٹی نے اس معاملے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے اسے انتہائی سنگین قرار دیا ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اسٹینڈنگ کمیٹی کی جانب سے ایپل کمپنی کے اہل کاروں کو طلب کرنا دراصل اس معاملے سے حکومت کو ہونے والے نقصان کو کم کرنا ہے۔
اشونی ویشنو کا کہنا ہے کہ ایپل نے 150 ملکوں میں ایسا نوٹی فکیشن ارسال کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ وارننگ ناقص اور نامکمل ڈیٹا کی بنیاد پر دی گئی ہے اور ممکن ہے کہ کچھ وارننگز فرضی ہوں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور وہ اس کی جانچ کرائے گی۔ ہم نے ایپل سے بھی کہا ہے کہ وہ مبینہ اسٹیٹ ایکٹرز سے متعلق حقیقی اور درست اطلاعات کے ساتھ جانچ میں شامل ہو۔
حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) نے حزب اختلاف کی تشویش کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ایپل کو از خود بعض انفرادی لوگوں اور اپوزیشن رہنماؤں کو بھیجے جانے والے نوٹی فکیشن کے معاملے کو واضح کرنا چاہیے۔
'شک کی سوئی مودی حکومت کی طرف گھوم رہی ہے'
سینئر صحافی اور نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے بانی مدیر سدھارتھ ورداراجن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کے سوشل میڈیا پوسٹ سے شک کی سوئی مودی حکومت کی طرف گھوم رہی ہے۔ اسی لیے اب حکومت کی جانب سے معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت بعض دوست صحافیوں کے توسط سے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ الرٹ ایپل کے پروگرام میں نقص کی وجہ سے جاری ہو گیا۔ متعدد ٹیلی ویژن اینکرز نے ایک پیغام فارورڈ کیا ہے جس میں ایپل کمپنی کے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ الگوردم میں خرابی کی وجہ سے انتباہ جاری ہو گیا۔
سدھارتھ ورداراجن کے مطابق جب 'دی وائر' نے اس سلسلے میں ایپل کے اہل کاروں سے رابطہ قائم کیا تو انھوں نے اس کی تردید کی اور اسے غلط قرار دیا۔
'ہیکرز کے حملوں کی نوعیت بدلتی رہتی ہے'
اس سے قبل ایپل کی جانب سے ایک وضاحتی بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ اس نے مذکورہ وارننگ کو ریاست کے زیر ہدایت کسی ہیکر سے منسوب نہیں کیا ہے۔ تاہم اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہیکرز کے پاس وافر فنڈ ہے اور وہ جدید ترین آلات سے لیس ہیں۔ ان کے حملوں کی شکل بدلتی رہی ہے۔
کمپنی کے مطابق وہ اس بارے میں مزید تفصیل نہیں دے سکتی کہ اس انتباہ کی وجہ کیا رہی کیوں کہ اس صورت میں ہیکرز کو اپنے بچاؤ میں مدد مل سکتی ہے۔
اس کے مطابق اس قسم کے حملوں کو معلوم کرنے کا انحصار خطرے کے انٹیلی جینس سگنل پر ہوتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ الارم کی اطلاع غلط ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ حملوں کا علم نہ ہو سکے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چہ سیل فون کمپنیاں بہت مہارت سے پروگرام تیار کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود ہیکنگ کے امکانات رہتے ہیں۔
آئی ٹی تجزیہ کار حسنین مظہر کا کہنا ہے کہ بھارت میں انٹرنیٹ کی آمد کے بعد سے ہی اس قسم کی چیزیں شروع ہو گئی تھیں اور ہیکنگ کے سافٹ ویئر بننے لگے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ موبائل ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد ایپ بنانے پر زیادہ کام ہوتا ہے۔ کمپنیاں اپنے صارفین کی رازداری کے تحفظ کے لیے پروگرام تو بناتی ہیں لیکن ٹیکنالوجی کے ریسرچرز ان پروگراموں کو بریک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ایپل ایک بڑی کمپنی ہے۔ اس کے باوجود اس کو وارننگ جاری کرنی پڑی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس معاملے کی تحقیقات کے بعد ہی حقیقی صورت حال سامنے آ سکے گی۔ لیکن کچھ ضرور ہوا ہو گا جس کی وجہ سے اس کے پروگرام سے آٹومیٹک وارننگ آگئی۔
ایپل کمپنی کے بیان میں اس وضاحت پر کہ اس نے وارننگ کو کسی مخصوص اسٹیٹ ایکٹر سے منسوب نہیں کیا ہے، انھوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ کمپنی نے اپنے تجارتی مفادات کے پیش نظر ایسا بیان دیا ہو۔
ایپل جیسی بڑی کمپنی کے فون میں ممکنہ جاسوسی کے امکانات پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کوئی بھی کمپنی جس دوسری کمپنی کے ساتھ کوئی معاملہ کرتی ہے تو اس کی ساری معلومات دوسری کمپنی کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔ اس کمپنی کا کوئی ماہر ان اطلاعات سے غلط فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اگر کوئی ایکسپرٹ اپنی کمپنی سے مستعفی ہو کر کوئی دوسری کمپنی جوائن کرتا ہے یا خود کوئی کمپنی لانچ کرتا ہے تو اس کے پاس بھی سابقہ کمپنی کی معلومات رہتی ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیکنگ کر سکتے ہیں۔
سدھارتھ ورداراجن سوال کرتے ہیں کہ کیا ایپل کے اس انتباہ کا تعلق 2021 کے پیگاسس جاسوسی معاملے سے بھی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایپل نے پیگاسس پروجیکٹ کی رپورٹنگ کے بعد نومبر 2021 میں الارم کے نوٹی فکیشن کا عمل شروع کیا تھا۔
یاد رہے کہ 2021 میں ایک بین الاقوامی کنسورشیم نے اپنی تحقیقات میں یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی کمپنی این ایس او گروپ کے پیگاسس سافٹ وئیر کے ذریعے بھارت کے تین سو سے زائد موبائل فون نمبر کو ٹارگٹ کیا گیا جن میں 40 سے زائد صحافی، مودی حکومت کے دو وزرا، اپوزیشن رہنما، انسانی حقوق کے کارکن، وکلا اور کئی بزنس مین شامل ہیں۔