عالمی وبا کرونا وائرس کے سبب دنیا بھر میں متعدد کمپنیوں کی جانب سے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور اب ویکسی نیشن کے عمل کے بعد مختلف ممالک میں وبا کی صورت حال قابو میں ہے اور اس سلسلے میں پابندیوں میں نرمی بھی کی جا رہی ہے۔
وبا کے دوران طویل عرصے گھر سے کام کرنے کے بعد اب کمپنیوں کی جانب سے ملازمین کو دوبارہ آفس بلانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
معروف ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کو گھر سے کام کرنے کے بعد اب دفاتر میں کام کرنے کے حوالے سے ملازمین کی مزاحمت کا سامنا ہے۔
ٹیکنالوجی ویب سائٹ 'دی ورج' کے مطابق کرونا وبا کے پیشِ نظر نافذ پابندیوں میں نرمی کے بعد آئی فون بنانے والی کمپنی ایپل کو بھی دیگر کمپنیوں کی طرح آفس دوبارہ کھولنے پر دشواری کا سامنا ہے۔
کمپنی نے رواں برس ستمبر سے ملازمین کو ہفتے میں تین روز آفس آنے کی ہدایت کی ہے۔
لیکن کمپنی کے تقریباً 80 ملازمین نے ایک خط پر دستخط کیے ہیں جس میں گزشتہ ایک برس سے زائد عرصے سے گھر سے کام کرنے والے ملازمین نے کمپنی سے مزید نرمی کرنے کی درخواست کی ہے۔
SEE ALSO: دن میں آٹھ گھنٹے کام اور 'ویک اینڈ' کا تصور کب آیا؟خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق ملازمین کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ کمپنی کی ورک پالیسی نے پہلے ہی ہمارے کئی ساتھیوں کو کمپنی چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں خط میں مزید کہا گیا ہے کہ گھر سے کام کرنے کے سسٹم نے بہت بہتر کام کیا ہے اور اس سے ملازمین بہتر کام اور زندگی میں توازن برقرار رکھ سکتے ہیں جب کہ یہ وبائی امراض کا خطرہ بھی کم کرتا ہے۔
خط میں ملازمین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملازمین پہلے ہی دنیا بھر میں موجود اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہتر طور پر جُڑے ہوئے تھے لیکن اب یہ پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
ملازمین کا کہنا تھا کہ ہم روزانہ دفتر آئے بغیر اسی طرح کام کرنے کے منتظر ہیں جس طرح ابھی کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ 'ایپل' کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ٹم کک نے گزشتہ ہفتے ملازمین کو ایک ای میل میں ریٹرن ٹو آفس پالیسی سے آگاہ کیا تھا۔ ای میل میں کہا گیا تھا کہ ملازمین کو پیر، منگل اور جمعرات کو دفاتر جب کہ بدھ اور جمعے کو گھر سے کام کرنے کی اجازت ہو گی۔
اپنی ای میل میں کک کا کہنا تھا کہ ویڈیو کانفرنس رابطے میں رہنے کا ایک ذریعہ ہے، لیکن یہ پھر بھی آمنے سامنے بیٹھ کر گفتگو کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
یاد رہے کہ عالمی وبا کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے دنیا کی مقبول ترین ٹیکنالوجی کمپنی گوگل، فیس بک اور مائیکرو سافٹ سمیت دیگر کمپنیوں نے ملازمین کو عارضی طور پر گھر سے کام جاری رکھنے کی اجازت دے رکھی تھی۔
تاہم ٹوئٹر کمپنی نے اپنے ملازمین کو مستقل طور پر گھر سے کام کرنے کی اجازت دی تھی۔