رسائی کے لنکس

کیا وبا کے بعد بھی ٹیلی ورک یا گھر سے کام کا سلسلہ جاری رہے گا؟


امریکی ریاست میساچیوسٹس کے علاقے کیمبرج کے رہائشی جیک کوپر سمتھ کرونا و ائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کے دوران اپنے گھر کے باہر بیٹھے ہوئے ایک ریموٹ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
امریکی ریاست میساچیوسٹس کے علاقے کیمبرج کے رہائشی جیک کوپر سمتھ کرونا و ائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کے دوران اپنے گھر کے باہر بیٹھے ہوئے ایک ریموٹ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

کرونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد امریکی کاروباروں نے بڑے پیمانے پر ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دی، جس کے بعد امریکہ میں پچھلے برس ساڑھے سات کروڑ افراد گھر سے کام کرتے رہے۔ وبا سے پہلے امریکہ میں یہ تعداد محض 50 لاکھ تھی۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب اس صورتحال میں تبدیلی شاید ممکن نہ ہو کیونکہ مالکان اور ملازمین، دونوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ گھر سے بھی موثر انداز میں کام کیا جا سکتا ہے۔

رینسیلر پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کے ٹموتھی گولڈن نے وائس آف امریکہ کی ڈورا میکوئیر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’عالمی وبا نے ہمارے ٹیلی ورک، یا گھر سے کام کو دیکھنے کے نظریے کو تبدیل کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے ذہن تبدیل ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سی ثقافتی اور سماجی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں جن میں ہمارے کام کرنے کے انداز تبدیل ہوئے ہیں۔ بہت سے افراد اور کمپنیوں کو اندازہ ہوا ہے کہ ہم دور بیٹھ کر بھی موثر انداذ میں کام کر سکتے ہیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ گھر سے بیٹھ کر کام مستقل بنیادوں پر موجود رہے گا۔‘‘

بہت سی کمپنیاں اس عالمی وبا کے بعد اپنے ملازمین سے کام لینے کے طریقہ کار پر غور کر رہی ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ کمپنیاں مخلوط نظام متعارف کروائیں گی جس میں کچھ لوگ تو دفتروں میں واپس جا کر کام کریں گے جب کہ کچھ لوگ گھروں سے ہی کام جاری رکھیں گے یا پھر کبھی آفس اور کبھی گھر سے کام کریں گے۔

گولڈن کا کہنا ہے کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ کمپنیاں چیف ریموٹ ورک آفیسر نام کی ایک نئی ایگزیکٹو درجے کی پوزیشن نکالنے پر غور کر رہی ہیں، جو گھر سے بیٹھ کر کام کرنے والوں کو دیکھے گا۔

فلوریڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی کے بزنس کالج میں گلوبل لیڈرشپ اینڈ مینجمنٹ کے شعبے کے سربراہ روی گجندرا کہتے ہیں کہ ’’اگر آپ گھر سے کام کے C-suite یعنی ایگزیکٹو درجے کے افسران کے گھر سے کام کرنے پر نظر ڈالیں، تو یہ بحث عالمی وبا سے پہلے کبھی کی ہی نہیں گئی تھی۔ اب مجھے لگتا ہے کہ ہر کمپنی کے سی ای او کے ذہن میں یہ خیال ہو گا۔‘‘

ان کے مطابق وبا سے پہلے ایسا تجربہ نہیں ہوا، جس میں کمپنی کے اکثر ملازمین گھروں سے کام کر رہے ہوں۔ ایسا کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ لیکن بقول ان کے جب مجبوراً یہ اقدام اٹھانا پڑا، تو کاروباری اداروں کو یہ معلوم ہوا کہ بڑی تعداد میں ملازمین گھر سے کام کر سکتے ہیں اور اس سے نقصان بھی کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔

ماضی میں کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گھر سے کام کرنے سے پیداواری صلاحیت پر فرق نہیں پڑتا، بلکہ ملازمین جب گھر سے کام کرنا شروع کر دیں تو ان کی پیداواری صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیلی ورک میں اضافے سے ملازمین کو یہ فائدہ ہو گا کہ انہیں اپنے کام کی جگہ کے قریب رہنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ وہ کہیں بھی رہ کر اپنا کام کر سکتے ہیں۔ جب کہ مالکان کو مقامی افراد میں سے ملازمین بھرتی کرنا لازم نہیں رہے گا، وہ کسی بھی جگہ سے، جہاں سستی لیبر دستیاب ہو، ملازمین بھرتی کر سکتے ہیں۔

گجیندرا کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں جب کمپنیاں دور بیٹھے کام کرنے کو ممکن جان لیں گی تو وہ چاہیں گی کہ تنخواہ کی مد میں وہ اپنا سرمایہ بچائیں، ایسی صورت میں ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ سے لوگ بھرتی کئے جا سکتے ہیں۔

ان کے مطابق اس کی وجہ سے مقامی لیبر مارکیٹ غیر مستحکم ہو سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق ٹیلی ورک کی وجہ سے رئیل سٹیٹ کی مارکیٹ بھی متاثر ہوگی۔

گولڈن کہتے ہیں کہ کمپنیاں آفس کے مقصد کے بارے میں نظر ثانی کر رہی ہیں۔ بقول ان کے وہ پوچھ رہی ہیں کہ آفس رکھنے کی کیا ضرورت ہے، کیا ضرورت ہے کہ روزانہ ورکرز کو وہاں جمع کیا جائے؟

XS
SM
MD
LG