کیا طالبان اپنا ڈیجیٹل اثرو رسوخ کھو رہے ہیں؟

گزشتہ ہفتے فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا نے سرکاری ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان (آر ٹی اے) اور باختر نیوز ایجنسی کے فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹس کو بند کردیا۔(فائل فوٹو)

طالبان کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر چھ لاکھ 30 ہزار سے زائد فالوورز ہیں لیکن ان کی پروفائل میں موجود واحد ویب ایڈریس ایک ختم شدہ پیچ سے لنک ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد اور ان کی ٹیم کو اُس وقت آن لائن پروپیگنڈے کا ماسٹر کہا جاتا تھا جب افغانستان میں طالبان امریکی فورسز سے لڑ رہے تھے۔ لیکن اب بطورِ حکومت طالبان کی جانب سے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے استعمال پرسروس سے انکار، مخالف مہمات اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ہٹائے جانے کا سامنا ہے۔

گزشتہ ہفتے فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا نے سرکاری ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان (آر ٹی اے) اور باختر نیوز ایجنسی کے فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹس کو بند کردیا۔

یہ اکاؤنٹس امریکہ کی حمایت یافتہ سابق افغان حکومت کی جانب سے بنائے گئے تھے اور اسے طالبان کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا جو اسے اپنی حکومت کی خبریں پھیلانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

میٹا کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ''امریکی قانون کے تحت طالبان پر ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر پابندی ہے اور ان پر ہماری پالیسیوں کے تحت ہماری سروسز استعمال کرنے پر پابندی ہے۔''

SEE ALSO: فیس بک نے طالبان کے زیر نگرانی کئی میڈیا اکاونٹس ہٹا دیے

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کا مطلب ہے کہ ہم ان اکاؤنٹس کو ہٹا دیتے ہیں جو طالبان چلاتے ہیں یا ان کی طرف سے چلائے جاتے ہیں اور ان کی تعریف، حمایت اور نمائندگی پر پابندی لگا دیتے ہیں۔''

گوگل

وی او اے جب اس اسٹوری پر رائے حاصل کرنا چاہ رہا تھا تو گوگل کو حوالے کے طور پر طالبان کے یوٹیوب ریڈیو چینل کا لنک بھیجا گیا۔ جس کے بعد 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں یہ چینل ختم ہو چکا تھا۔

گوگل کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ''گوگل قابل اطلاق امریکی پابندیوں کے قوانین پر عمل کے لیے پرعزم ہے اور وہ اپنی سروس کی شرائط کے تحت متعلقہ پالیسیز کو نافذ کرتا ہے۔ لہٰذا اگر ہمیں طالبان سے تعلق رکھنے والے اکاؤنٹ کا معلوم ہوتا ہے، تو ہم اسے ختم کردیتے ہیں۔''

ٹوئٹر

سابق افغان صدر اشرف غنی کے افغانستان سے فرار ہونے کے کچھ روز بعد طالبان کے عبوری وزیرِاعظم ملا حسن اخوند نے کابل میں موجود صدارتی محل 'ارگ' پر قبضہ کرلیا تھا۔

کابل اور ملک کے تمام حصوں پر اپنا تسلط جما لینے کے باوجود اخوند صدارتی محل کے ڈیجیٹل اثاثوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ جس کے باعث ''president.gov.af '' کا ڈومین معطل ہے۔ ارگ کا لاکھوں لائیکس رکھنے والے فیس بک پیج کا کوئی وجود نہیں ہے جب کہ اشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے والے دن یعنی15 اگست 2021 سے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل @ARG_AFG غیر فعال ہے۔

یہی وجہ ہے ٹوئٹر پر طالبان کا کوئی تصدیق شدہ اکاؤنٹ نہیں ہے۔ لیکن پلیٹ فارم پر مختلف غیر مصدقہ اکاؤنٹس ہیں جس میں ذبیح اللہ مجاہد کا اکاؤنٹ بھی شامل ہے۔ ان اکاؤنٹس کے ذریعے طالبان کی پالیسیوں اور بیانات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

اس معاملے پر ٹوئٹر نے رابطہ کرنے پر کوئی جواب نہیں دیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

طالبان پر سوشل میڈیا کمپنیوں کی پابندیاں، عسکری گروہ کا سنسر شپ کا الزام

ٹیررازم ریسرچ انیشی ایٹو کی 2014 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق طالبان نے 2011 میں ٹوئٹر کا استعمال بنیادی طور پر مغربی صارفین کو ہدف بنانے کے لیے کیا اور پھر پروپیگینڈا پھیلانے کے لیے تیزی سے اس سروس کا استعمال کیا۔

میٹا کی جانب سے آر ٹی اے کے فیس بک اکاؤنٹس بند کیے جانے کے بعد مہم چلانے والے کچھ افراد نے ٹوئٹر پر ''بین طالبان''کا ہیش ٹیگ چلانا شروع کردیا۔

اس کے جواب میں طالبان کے حامی لوگوں نے''سپورٹ طالبان'' کا ہیش ٹیگ چلایا، جس پراے آئی ٹریکنگ اکاؤنٹ کے مطابق کچھ ٹوئٹر صارفین نے واضح ردعمل دیا۔

ڈی فیکٹو حکومت

امریکی حکومت نے کئی طالبان رہنماؤں اور ان سے منسلک اداروں کوعالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔

نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی میں سالٹزمین انسٹی ٹیوٹ آف وار اینڈ پیس اسٹڈیز کے فیکلٹی ممبر تمر مٹس کے مطابق باغیوں کے طور پر طالبان نے افغانستان میں امریکی اور اتحادی فورسز کے خلاف مسلح کارروائیاں کیں۔ لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد سے گروپ کے بیانات اور بیان بازی کا رخ زیادہ تر گورننس اور سماجی خدمات کی فراہمی کی طرف ہو گیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'طالبان کے انٹیلی جنس اہلکار صحافیوں کواٹھا کر نامعلوم مقام پر لے جاتے ہیں'

انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ جو چیز طالبان کو منفرد بناتی ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے دیگر گروپس کے برعکس یہ ایک ریاست کے طور پر بھی کام کرتے ہیں، جو ان سوالات کو جنم دیتا ہے کہ آیا کمپنیز کو گورننس سے متعلق مواد کی اپنے پلیٹ فارم پر اجازت دینی چاہیے جب کہ مواد تیار کرنے والوں کو ایک خطرناک تنظیم کے طور پر نامزد کیا جاتا ہے۔

البتہ طالبان سماجی رابطوں کی سائٹس سے ہٹائے جانے کو چیلنج کرتے ہیں کہ یہ آزادی اظہار رائے کی طرف مغربی منافقت کی علامت ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے 20 جولائی کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ ''آزادی اظہار کا نعرہ دوسری قوموں کو دھوکا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔'

اس کے برعکس افغانستان کے پڑوسی ملک ایران میں اسلامی حکومت نے فیس بک پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ مگر طالبان نے افغانستان کے اندر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی نہیں لگائی ہے۔