افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ملک کے وزیرِ دفاع، داخلہ اور آرمی چیف کو تبدیل کردیا ہے۔ یہ تبدیلی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب افغانستان میں سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی میں شدت آ رہی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی ایک رپورٹ کے مطابق ہفتے کو رات گئے افغان صدارتی محل کی جانب سے ان تبدیلیوں کا اعلان سامنے آیا۔
ان تبدیلیوں کے بعد اسد اللہ خالد کی جگہ بسم اللہ خان محمدی کو قائم مقام وزیرِ دفاع تعینات کردیا گیا جب کہ حیات اللہ حیات کی جگہ عبدالستار مرزا خوال نئے وزیر داخلہ ہوں گے۔
صدارتی محل کی جانب سے کہا گیا کہ جنرل ولی محمد نئے آرمی چیف ہوں گے۔ انہیں جنرل یاسین ضیا کی جگہ تعینات کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ کی جانب سے 11 ستمبر تک افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد سے افغان سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ طالبان کی جانب سے کم از کم 30 اضلاع پر قبضے کا دعویٰ بھی سامنے آیا تھا۔
'رائٹرز' کے مطابق ملک کے 34 میں سے 28 صوبوں میں افغان سیکیورٹی فورسز طالبان کے ساتھ لڑ رہی ہیں جب کہ طالبان کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں مزید علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا تھا کہ جمعہ کو صوبۂ فریاب میں طالبان کی جانب سے قبضہ کیے گئے ضلع کو واپس لینے کے لیے ہونے والی لڑائی کے دوران افغان اسپیشل فورسز کے 24 اہلکار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔
طالبان ملک میں 'حقیقی اسلامی نظام' کے خواہاں
دوسری جانب 'رائٹرز' کی ایک اور رپورٹ کے مطابق افغان طالبان نے امن مذاکرات کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں 'حقیقی اسلامی نظام' چاہتے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ امن مذاکرات کے پابند ہیں اور وہ افغانستان میں 'حقیقی اسلامی نظام' چاہتے ہیں جس میں ثقافتی روایات اور مذہبی قواعد کی روشنی میں خواتین کو حقوق حاصل ہوں۔
طالبان کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان کے درمیان مذاکرات سست روی کا شکار ہیں۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد قائم ہونے والے نظام سے متعلق دنیا اور افغان عوام کے سوالات ہیں۔'
ان کے بقول، 'افغان عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ایک حقیقی اسلامی نظام بہترین ذریعہ ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'مذاکرات میں ہماری بھرپور شرکت اور ہماری طرف سے اس کی حمایت اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ہم افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کے حل پر یقین رکھتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ طالبان ایسے نظامِ حکومت کے خواہاں ہیں جہاں خواتین اور اقلیتوں کا تحفظ کیا جائے گا اور سفارت کاروں اور این جی او ملازمین بھی بلا خوف و خطر کام کر سکیں گے۔
اپنے بیان میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'ہم اسلام اور افغان معاشرے کی عظیم روایات کی روشنی میں افغان مرد و خواتین کو حقوق دینے کے اپنے وعدے پر قائم ہیں۔