سپریم کورٹ نے توہینِ مذہب کے مقدمے میں آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل سماعت کے لیے منظور کرلی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کا تین رکنی بینچ 29 جنوری کو اپیل کی سماعت کرے گا۔
رجسٹرار سپریم کورٹ کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بینچ کی سربراہی کریں گے جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل بینچ میں شامل ہوں گے۔
توہینِ مذہب کے مقدمے میں آسیہ بی بی کی بریت اور رہائی کے خلاف قاری محمد اسلام نے سپریم کورٹ میں نظرِ ثانی کی اپیل دائر کی ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ تفتیش کے دوران آسیہ بی بی نے جرم کا اعتراف کیا اس کے باوجود ملزمہ کو بری کردیا گیا۔ سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی جائے۔
اپیل میں آسیہ بی بی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔
آسیہ بی بی کو 2010ء میں پنجاب کی ایک ماتحت عدالت نے سزائے موت سنائی تھی جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے بھی آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج کر دی تھی۔
گزشتہ سال 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آسیہ بی بی کو بری کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد پاکستان میں مذہبی جماعتوں نے سخت احتجاج کیا تھا۔
اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے مقدمے کے فیصلے میں لکھا تھا کہ بعض اوقات کچھ مذموم مقاصد کے حصول کے لیے قانون کو انفرادی طور غلط استعمال کرتے ہوئے توہینِ رسالت کا جھوٹا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ 1990ء سے اب تک تقریباً 62 افراد توہینِ رسالت کے الزام میں مقدمے کی سماعت سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔
فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ آسیہ بی بی کے کیس میں گواہان کے بیانات میں واضح تضاد پائے جاتے ہیں جب کہ شکایت کنندہ اور چشم دید گواہوں نے بھی کئی حقائق چھپائے۔
آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ کرنے والے بینچ میں موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی شامل تھے جنہوں نے اس وقت فیصلے میں اپنے نوٹ میں مزید نکات اٹھاتے ہوئے لکھا تھا کہ استغاثہ کے گواہوں کے بیانات میں تضادات سے محسوس ہوتا ہے کہ منصوبہ بندی کے تحت الزام لگایا گیا۔
توہینِ رسالت ایک سنگین جرم ہے لیکن شکایت کنندہ فریق کی جانب سے اپیل گزار کے مذہب اور مذہبی احساسات کی توہین اور پھر پیغمبرِ اسلام کے نام پر سچ میں جھوٹ ملانا بھی توہینِ رسالت سے کم نہیں۔
آسیہ بی بی کا تعلق پاکستان کی اقلیتی مسیحی برادری سے ہے اور وہ صوبہٴ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کی رہائشی ہیں۔ آسیہ بی بی کو 2010ء میں مقامی پولیس نے ان کے گاؤں کے بعض افراد کی شکایت پر توہینِ رسالت کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
آسیہ بی بی سے اُس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے جیل میں ملاقات کی تھی جس کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ توہینِ مذہب کا قانون انسانوں کا بنایا ہوا ہے جس پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے اس بیان کے بعد اُن کے سرکاری محافظ اور پنجاب پولیس کے اہلکار ممتاز قادری نے انہیں فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔
پاکستان میں توہینِ مذہب انتہائی حساس معاملہ ہے اور ماضی میں اس سے متعلق قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال کے واقعات منظر عام پر آنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیمیں اس قانون کے خاتمے یا پھر اس کا غلط استعمال روکنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔
البتہ مذہبی حلقے اس قانون میں کسی بھی قسم کی ترمیم کے خلاف ہیں۔
آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے خلاف گزشتہ سال ملک کے بیشتر بڑے شہروں میں سخت احتجاج ہوا تھا اور مشتعل مظاہرین نے کئی مقامات پر دھرنے بھی دیے تھے جو چار دن بعد بالآخر حکومت سے مذاکرات کے نتیجے میں ختم ہوئے تھے۔
اپنی رہائی کے بعد سے آسیہ بی بی اور ان کے اہلِ خانہ حکومتِ پاکستان کی حفاظتی تحویل میں ہیں۔ بعض حلقوں کا الزام ہے کہ حکومت نے انہیں بیرونِ ملک منتقل کردیا ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے پیشِ نظر آسیہ بی بی کی قیام گاہ کو خفیہ رکھا گیا ہے اور وہ اپیل کے فیصلے تک پاکستان میں ہی رہیں گی۔