سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نئے انتخابات سے نہیں ڈرتی، البتہ موجودہ حکومت کے ایجنڈے میں انتخابی اصلاحات شامل ہیں۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ نئے انتخابات کرانے کے حوالے سے بار بار کہا جا رہا ہے۔ نئے الیکشن کرائے جائیں گے تو بھی نئی حکومت کو موجودہ تمام مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ موجودہ حکومت کو انتخابی اصلاحات کرنی ہیں اس کے بعد انتخابات کرائے جائیں گے۔ چاہے اس میں تین ماہ کا وقت لگے یا اس سے زیادہ وقت لگ جائے۔
آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا تھا کہ انتخابی اصلاحات کی جائیں گی۔ انتخابی اصلاحات ہو جائیں اور قانون میں تبدیلی آ جائے اور بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کا مسئلہ حل ہو جائے تو پارلیمان فیصلہ کر لے کہ انتخابات ہونے چاہیئں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
خیال رہے کہ رواں برس نومبر میں پاکستان کی فوج کے سربراہ کی تبدیلی ہونی ہے۔ موجودہ حکومت میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ممکن ہے رواں برس انتخابات کرا دیے جائیں اور جس وقت آرمی چیف کی تبدیلی ہو تو اس وقت ملک میں ایک نگران حکومت ہو یا اس دوران نئی حکومت قائم ہو چکی ہو۔
آصف علی زرداری کا پریس کانفرنس میں مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ گزشتہ انتخابات دھاندلی زدہ تھے اس لیے نئے الیکشن ہونے چاہیئں۔ اس وقت کسی نے اس تجویز کو نہیں مانا۔ انہوں نے تحریکِ انصاف اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کی حکومت نے بھی اس تجویر کو نہیں سنا۔
SEE ALSO: نئے آرمی چیف کے تقرر سے قبل نومبر میں انتخابات ہو سکتے ہیں: خواجہ آصفتحریکِ انصاف کے حوالے سے آصف زرداری کا مزید کہنا تھا کہ نئے انتخابات کرا کر وہ کیا حاصل کرلیں گے؟ گزشتہ چار سال میں انہوں نے کیا کر لیا تھا۔
سابق صدر نے موجودہ اتحادی حکومت میں فیصلہ سازی کے حوالے سے کہا کہ ان کی سابق وزیرِ اعظم نواز شریف سے بات چیت ہوئی ہے۔ تمام فیصلے مشاورت سے کیے جا رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کوئی اور بات کریں گے اور نواز شریف کچھ اور کہیں گے یا مولانا فضل الرحمٰن کا مؤقف کچھ اور ہوگا۔ سب کو مل کر موجودہ صورتِ حال کا مقابلہ کرنا ہے۔ سیاست میں شکست اور کامیابی تو ہوتی رہتی ہے۔
خیال رہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد مختلف جماعتوں کی حمایت سے بننے والی مخلوط حکومت میں پیپلزپارٹی کے وزرا بھی شامل ہیں۔
تحریکِ عدم اعتماد سے حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے آصف زرداری کا کنا تھا کہ جب سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تو سابق حکمران جماعت کے کسی بھی رکن کا ووٹ نہیں لیا گیا۔
موجودہ سیاسی صورتِ حال میں فوج کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اگر فوج پہلی دفعہ سیاست سے دور ہوئی ہے تو کیا ان کو سیلوٹ نہیں کرنا چاہیے یا ان سے سوال کرنا چاہیے کہ تم غیر سیاسی کیوں ہو گئے ہو؟
SEE ALSO: شہباز شریف سمیت لیگی رہنماؤں کی لندن آمد: 'یہ تاثر مل رہا ہے کہ اصل وزیرِ اعظم نواز شریف ہی ہیں'ان کا مزید کہنا تھا کہ فوج نےکسی سے یہ نہیں کہا کہ کس کو جا کر ووٹ دینا ہے۔ انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اس حوالے سے انہوں نے آئین کے مطابق حلف لیا ہے اور انہوں نے اپنے حلف کی پاسداری کی۔ اب وہ حلف کی پاسداری کریں تو بھی غلط ہیں اور اگر وہ حلف کی پاسداری نہیں کرتے تو بھی ان کو غلط کہا جاتا ہے۔ یہ قصہ نہیں چلے گا۔
سیاسی جماعتوں کا سابق حکومت سے الگ ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنے اتحادیوں کے سیاسی وعدوں کو پورا نہیں کیا تھا اس لیے وہ ان سے الگ ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ساری صورتِ حال سے یہ واضح ہو گیا کہ فوج سیاست سے دور اور نیوٹرل رہ سکتی ہے۔
آصف علی زرداری نے کہا کہ کوشش کی جائے گی کہ فوج غیر سیاسی ہی رہے اور عوام کے جو بھی مسائل ہیں وہ عوام کے منتخب نمائندے ہی حل کریں۔
عمران خان کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ کیا یہ بنگال کے نواب تھے کہ ان کو میر جعفر اور میر صادق نے دھوکہ دیا۔ ان کا کیا واسطہ آج کی صورتِ حال سے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ نہ ہوں تو کوئی بھی نہ ہو۔
عمران خان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ہونے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اتنی سازشیں ہوئی ہیں تو اگر کسی معاملے میں سازش نہ بھی ہو تو اس میں سازش تلاش کر لیتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
عمران خان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بیرونِ ملک کچھ پاکستانیوں کو انہوں نے گمراہ کیا ہوا ہے۔ وہ یہاں رہتے نہیں اس لیے ان کو یہاں کی گرمی اور مہنگائی کا علم نہیں ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس پر بحث کی جانی چاہیے اور ایوان میں ان کے لیے نشستیں مخصوص کر دینی چاہیئں۔ البتہ اس معاملے پر تبادلۂ خیال کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے غیرملکی مداخلت کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد کے لیے پوری مہم کی انہوں نے خود قیادت کی تھی۔ اس دوران کسی نے بھی ان سے رابطہ نہیں کیا تھا۔
حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے بیرونی مداخلت کے عمران خان کے بیانیے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہ یہ ان کی اپنی تخلیق ہے۔ وہ اس کو ایک سیاسی معاملہ بنا رہے ہیں۔
امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ کو روس کی یوکرین میں جنگ کا سامنا ہے۔ ان کی اپنی معیشت خراب ہے۔ ڈالر کمزور ہو رہا ہے۔ تو کیا ان کے پاس اس سب کے لیے وقت ہوگا؟ سارے جہاں کا درد ان کے جگر میں نہیں ہے۔ پاکستان کو اپنے مسائل خود حل کرنے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان: سیاسی استحکام کے لیے کون سا ادارہ ’امپائر‘ بن سکتا ہے؟مراسلے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ مراسلہ امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے نہیں بھیجا بلکہ پاکستان کے ایک سفارت کار نے ارسال کیا ہے۔ اس کے ذریعے ایک سیاسی ڈرامہ بنایا گیا۔
امریکہ کے صدر کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ جو بائیڈن کو جانتے ہیں اور وہ ان کے دوست ہیں۔ کم از کم وہ اتنا ہی کر لیتے کہ ان کو ٹیلی فون کرکے کہہ دیتے کہ تم نے بہت اچھا کام کیا۔ لیکن ان کو ایساکوئی فون نہیں آیا۔ اس کا مطلب ہے کہ عمران خان اس مراسلے سے ایک غیر ضروری فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔