جنوبی اور وسطی ایشیا کے امور کے لیے امریکہ کے معاون وزیر خارجہ ِڈونلڈ لو نے کہا ہے کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن بھات کے دورے میں اپنے بھارتی ہم منصب سے کن امور پر گفتگو کریں گے تاہم انہیں پوری توقع ہے کہ چین سے متعلق وہ سنجیدہ گفتگو جاری رہے گی جو چین کے نگرانی کے غبارے کے سکینڈل سے پہلے اور اس کے بعد بھی ہوتی رہی ہے۔
ڈونلڈ لوجمعے کے روز ایک ٹیلی کانفرنس میں اکنامکس اور بزنس کے امور کے لیے اسسٹنٹ امریکی وزیر رامین طلوئی کے ساتھ امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن کے آئندہ دورہ قزاقستان، ازبکستان اور بھارت کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ آیا وزیرِ خارجہ بلنکن، بھارت کے ہمسایہ ممالک پاکستان اور سری لنکا کو چینی قرضوں کے باعث درپیش معاشی مشکلات کے بارے میں بات کریں گے، انہوں نے کہا کہ بھارت کے قریبی ہمسایہ ممالک کے لیے چینی قرضوں کی فراہمی پر امریکہ کو گہری تشویش ہے کہ یہ قرضے دباؤ کی قوت کے طور پر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
SEE ALSO: بھارت میںG-20 کانفرنس میں امریکہ، چین اورروس کے وزراء خارجہ کی موجودگی متوقعانہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ اور خطے میں ان ممالک کے ساتھ بات کر رہے ہیں کہ ہم ان ممالک کو اپنے فیصلے خود کرنے میں کیسےمدد دے سکتے ہیں تاکہ وہ چین سمیت کسی بیرونی شراکت دارکے دباؤ میں آکر اپنے فیصلے نہ کریں۔
اس ٹیلی کانفرنس میں اسسٹنٹ وزیرِ خارجہ لو نے بلوم برگ نیوز کے متعدد سوالات کے جواب دیے۔
ان سے پوچھا گیا کہ بھارت روس کے یوکرین پر حملے کے ذکر میں لفظ’’جنگ‘‘ کا استعمال نہیں کرتا اور یو کرین جنگ کا ایک سال مکمل ہوتے ہی بھارت G-20 سربراہ کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے توکیا امریکہ اس موقعے پر بھارت سے کوئی استفسار کرے گا؟ پھر بھارت اور روس کے دفاعی تعلقات اور روسی اسلحہ پر اس کے انحصار کو یوکرین کے تناظر میں امریکہ کیسے دیکھتا ہے اور یہ کہ امریکہ ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت پر مشتمل کواڈ نامی گروپ میں، جس کا مقصد سیکیورٹی اور اقتصادی امور سے متعلق مذاکرات ہیں، بھارت کا جھکاؤ زیادہ تر فوجی امور پر رہا ہے تو کیا امریکہ سمجھتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہو تو چین کو زیادہ الجھن نہیں ہوگی؟
SEE ALSO: جدید لڑاکا طیاروں کی پیشکش: امریکہ کی بھارت کو روس سے دور کرنے کی کوشش؟معاون وزیرِ خارجہ لو نے ان سب سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا،’’ جہاں تک کواڈ گروپ کا تعلق ہے تو ہم تمام چار ارکان یہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ کواڈ کوئی فوجی اتحاد نہیں ہے، نہ ہی یہ کسی ایک ملک یا ممالک کے خلاف کوئی تنظیم ہے۔ کواڈ کا مقصد ہند و بحر الکاہل میں ان سرگرمیوں اور اقدار کی حمایت اور فروغ ہے جو ایک آزاد، کھلے پن کے حامل اور خوشحال ہند و بحرالکاہل خطے کی روایات ہیں اور جن کی ہم چار ممالک نمائندگی کرتے ہیں۔ ‘‘
انہوں نے کہا کہ جہاں تک بھارت اور روس کے فوجی تعلقات ہیں تو وہ بھارت کی طرف سے کوئی گفتگو نہیں کر سکتے البتہ جو وہ جانتے ہیں وہ یہ کہ روس کو فوجی کانٹریکٹ کے آرڈر بھرنے میں واقعتاً دشواری پیش آرہی ہے۔" ہمیں دنیا بھرمیں اس کے کافی شواہد ملے ہیں۔ اور اگر آپ پریس رپورٹس دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ بھارت بھی اس سوچ میں ہے کہ آیا روس اس کے دفاع کا سامان مہیا کر پائے گا یا نہیں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
بھارت کے لفظ ’’ جنگ‘‘ استعمال نہ کرنے کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے امریکہ کےمعاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو نے کہا،’’ بھارت ہمیشہ جنگ کا لفظ استعمال کرتا رہا ہے۔ آپ نے سنا ہوگا وزیرِ اعظم مودی نےاگست میں کہا تھا کہ اب جنگ کا دور نہیں۔ خارجہ امور کے وزیر جے شنکر نے ستمبر میں اقوامِ متحدہ میں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ جنگ سفارتی طریقوں سے اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں دیے گئے اصولوں کے مطابق علاقائی یک جہتی اور خودمختاری کو مضبوط بناتے ہوئے ختم ہو جائے۔ اور پھر آپ نے دسمبر میں بھارت کے وزیرِ دفاع کو سنا جنہوں نے کہا کہ روس کی جانب سے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہے اور انسانیت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ ‘‘
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ وزیر خارجہ انٹنی بلنکن 28 فروری سے 3 مارچ تک ایشیائی ممالک کا دورہ کر رہے ہیں۔
بیان کے مطابق اپنے اس دورے میں وہ قازقستان، ازبکستان اور بھارت جائیں گے۔ 28 فروری کو، وہ آستانہ، قازقستان کا دورہ کریں گے، جہاں وہ قازقستان کے سینئر حکام سے ملاقات کریں گے۔ اس کے بعد وہ وسطی ایشیائی ممالک میں سے ہر ایک کے نمائندوں کے ساتھ C5+1 وزارتی اجلاس میں شرکت کریں گے، تاکہ وسطی ایشیائی ممالک کی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے ریاستہائے متحدہ کے عزم کا اعادہ کیا جا سکے اور خطے کے ساتھ مسائل کے حل پر تعاون کیا جا سکے۔
یہ گروپ سابق سوویت جمہوریہ قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان اور امریکہ پرمشتمل ہے۔
یکم مارچ کو، وہ G20 وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی جائیں گے، جس میں خوراک اور توانائی کی سسیکیورٹی کو مضبوط بنانے، پائیدار ترقی، صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے ، منشیات کی روک تھام، عالمی صحت، انسانی ہمدردی کی امداد اور قدرتی آفات کی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز ہو گی۔
یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب یوکرین میں روس کی جنگ اورہند بحرالکاہل میں چین کے موقف پرامریکہ کے روس اور چین کے ساتھ تعلقات میں تناؤ بڑھ گیا ہے۔
امریکی حکام نے بلنکن کی نئی دہلی میں چینی وزیر خارجہ چن گانگ یا روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ ملاقات کے امکانات کے بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ جب کہ یہ تینوں اعلیٰ سفارت کار جی۔20 اجلاس کے لیے بھارتی دارالحکومت میں موجود ہوں گے۔ محکمہ خارجہ نے صرف اتنا کہا ہے کہ کوئی ملاقاتیں طے نہیں ہیں۔