پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی رضاکارانہ علیحدگی اسکیم کی درخواستیں وصولی کی مدت ختم ہو گئی ہے۔ حکام کے مطابق 2000 ملازمین نے ادارے سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ جب کہ 1000 ملازمین کو ریلیز کیے جانے کے خطوط جاری کر دیے گئے ہیں۔
پی آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ اس عمل سے ادارے پر موجود افرادی قوت کے بوجھ میں کمی آئے گی۔ جب کہ ملازمین کی یونین کا کہنا ہے کہ رضاکارانہ علیحدگی اسکیم ظالمانہ اقدام ہے۔ ملازمین کو زبردستی اسکیم میں شامل کیا گیا۔
کرونا وبا کی وجہ سے سال 2020 ہوا بازی کی صنعت کے لیے ایک مشکل سال رہا اور اس سال پاکستان کی قومی ایئر لائن نہ صرف کرونا بلکہ سفری پابندیوں کی وجہ سے بھی مشکلات میں رہی اور پی آئی اے کے نقصانات میں بھی اضافہ ہوا۔
پی آئی اے میں موجود 14 ہزار سے زائد ملازمین کی تعداد کو کم کرنے اور پی آئی اے کی بحالی کے لیے ملازمین کی رضاکارانہ علیحدگی اسکیم متعارف کرائی گئی، جو 31 دسمبر کو ختم ہو گئی۔
اس اسکیم کے تحت ملازمین کو مراعات اور مالی فوائد کی پیشکش کی گئی تھی۔
پی آئی اے حکام کے مطابق اس اسکیم سے دو ہزار کے قریب ملازمین نے فائدہ اٹھایا ہے اور رضاکارانہ علیحدگی کے لیے دستاویزات جمع کرائی ہیں۔ جب کہ ایک ہزار ملازمین کو ریلیز کیے جانے خطوط بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔
پی آئی اے کے مطابق تمام محکموں کے افراد اس میں شامل ہیں۔ تاہم ان میں اکثریت ایئر پورٹ سروسز، کمرشل اور فلائٹ سروسز کی ہے۔
پی آئی اے کے ترجمان عبد اللہ حفیظ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک پرکشش پیکیج تھا۔ جس کے تحت با عزت اور پر وقار طریقے سے ملازمین نے علیحدگی اختیار کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
عبداللہ حفیظ نے کہا کہ پی آئی اے پر ایک بڑا دباؤ اس کی افرادی قوت کا تھا اور اس حوالے سے انہوں نے سال 2020 کا اپنا ٹارگٹ حاصل کر لیا ہے۔
اس کے برعکس ملازمین کی تنظیم 'آفیسرز ایسوسی ایشن' کے سیکرٹری جنرل صفدر انجم نے کہا کہ اگر ملازمین پر دباؤ نہ ڈالا جاتا تو شاید 10 لوگ بھی ادارہ نہ چھوڑتے۔ لیکن ملازمین پر شدید دباؤ ڈالا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے ملازمین کو کراچی سے اسلام آباد اور دیگر شہروں میں ٹرانسفر کر کے انہیں زبردستی اس اسکیم میں شامل کیا گیا۔
صفدر انجم کا کہنا تھا کہ اگر ادارہ کی ری اسٹرکچرنگ کی جا رہی ہے تو اس مقصد کے لیے پی آئی اے حکام نئے جہاز کیوں نہیں لا رہے۔ صرف ملازمین کو فارغ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملازمین کی تنخواہوں کا پی آئی اے ریونیو پر بوجھ صرف 17 فی صد تھا اور اس میں سے بھی اکثر ملازمین ڈیلی ویجز تھے۔ لیکن پی آئی اے کو چلانے کے حوالے سے حکام نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال مینیجمنٹ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ایئر لائن کو 125 ارب روپے کے نقصانات کا سامنا ہے۔
ان کے بقول پی آئی اے جو دنیا بھر میں بہترین ایئر لائن سمجھی جاتی تھی، اس وقت مینیجمنٹ کی غلطیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں ہمارے جہاز اترنا مشکل ہو گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پی آئی اے کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کے ذریعہ افرادی قوت کو کم کرنا ہمارے منصوبے یا بزنس پلان کا کلیدی حصہ تھا۔
حکام کے مطابق وہ اس اسکیم کے تحت 20 فی صد تک افرادی قوت کم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جس سے پی آئی اے تقریبا اڑھائی ارب سالانہ کی بچت کرے گی اور یہ سرمایہ کاری دو سال کے قلیل عرصے میں واپس حاصل ہو جائے گی۔
رواں سال جعلی لائسنس اسکینڈل کے حوالے سے وزیر ہوا بازی کے بیان کے بعد دنیا بھر میں بیشتر مقامات پر پی آئی اے اپنی پروازیں آپریٹ بھی نہیں کر پا رہی۔
پی آئی اے مالی مشکلات سے نکلنے کے لیے اپنے بوئنگ 777 جہاز طویل پروازوں کی بجائے کارگو کے لیے چلا رہی ہے۔