پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں قائم انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ساہیوال کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مقدمے میں ملوث تمام ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا۔
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر ایک کے جج ارشد حسین بھٹہ نے سانحہ ساہیوال کیس پر سماعت کی۔
عدالت میں سماعت شروع ہوئی تو ملزمان کے وکلا کی سرکاری گواہوں کے بیانات پر جرح مکمل کی گئی۔ ملزمان میں صفدر حسین، احسن خان، رمضان، سیف اللہ، حسنین اور ناصر نواز عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے مقتول ذیشان کے بھائی اور مقتول خلیل کے بھائی جلیل سمیت مجموعی طور پر 49 گواہان کے بیان قلم بند کیے۔
مقتول ذیشان کے بھائی احتشام نے عدالت کے روبرو اپنے بیانات قلمبند کرائے جبکہ سانحے کے دوسرے مقتول خلیل کے بھائی جلیل اور مقتول کے بچوں عمیر اور منیبہ نے بھی عدالت کے سامنے بیانات قلم بند کرائے، جس میں تمام گواہوں نے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ مقتول کے بھائی عبد الجلیل نے مقدمہ درج کرنے کی درخواست دائر کرنے سے انکار کیا جبکہ سانحہ ساہیوال کے زخمی گواہوں نے بھی ملزمان کو شناخت نہیں کیا۔
یہ بھی لکھا گیا کہ فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ میں بھی ملزمان کی شناخت نہیں ہوئی۔ جائے وقوع سے ملنے والی گولیوں کے خول بھی تاخیر سے فرانزک کے لیے بھیجے گئے جبکہ پولیس کو اسلحہ فراہم کرنے والے انچارج نے سانحہ ساہیوال کا سارا اسلحہ واپس آنے کا بیان دیا۔
سانحہ ساہیوال پر عدالت میں حکومت پنجاب کی جانب سے کیس کی پیروی کرنے والے سرکاری وکیل عبدالرؤف وٹو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ واقعہ کے جتنے بھی گواہ تھے وہ تمام منحرف ہوئے اور ملزمان کو پہچاننے سے انکار کیا۔
ان کے مطابق، عدالت نے سانحہ میں ملوث تمام ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا۔
عبدالرؤف وٹو نے کہا کہ وہ سرکاری وکیل ہیں۔ اِس کیس پر زیادہ گفتگو نہیں کر سکتے۔ عدالت کے باہر کیا ہوا انہیں کچھ معلوم نہیں ہے۔
ان کے مطابق، عدالت میں جب گواہان اپنے بیانات دینے آئے ہیں تو انہوں نے جج صاحب کے روبرو کہا کہ وہ ملزمان کو نہیں جانتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اِس کیس میں مجموعی طور پر 49 افراد تھے جس میں سے 24 کا دعوٰی تھا کہ انہوں نے یہ سارا واقعہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ تمام افراد عدالت میں آئے اور انہوں نے عدالت سے کہا کہ یہ تو ملزم نہیں ہیں۔ ہم نے پولیس کو جو بیانات دیے ہیں ہم ان سے انحراف کرتے ہیں۔
سرکاری وکیل کے مطابق، اِس کیس کے حق میں کسی نے کوئی بیان نہیں دیا۔
سانحہ ساہیوال پر مقتول خلیل کے بھائی محمد جلیل کہتے ہیں کہ عدالت نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ اُسے قبول کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمد جلیل نے کہا کہ وہ موقع پر موجود ہی نہیں تھے۔ وہ ملزمان کو کیسے پہچان سکتے ہیں۔
محمد جلیل نے کہا کہ بچے واقعے کے وقت موجود ضرور تھے، لیکن، اُنہیں بھی واقعے سے متعلق کچھ نہیں پتا وہ تو بچے ہیں۔ اسی لیے ہم سب نے عدالت کے سامنے گواہی دی کہ وہ ملزمان کو نہیں پہچانتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سارا معاملہ عدالت پر چھوڑ دیا تھا۔ ہم پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔
محمد جلیل کے مطابق، حکومت نے بچوں کی پرورش کے لیے ہمیں پہلے دو کروڑ روپے دیے تھے اُس کے بعد ہم نے کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیا۔
رواں سال جنوری کی سہ پہر محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے ضلع ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک گاڑی پر فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں خلیل، ان کی اہلیہ، بیٹی اور محلے دار ذیشان گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے تھے۔ کارروائی میں تین بچے بھی زخمی ہوئے تھے۔
واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیے گئے۔ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں پہلے واقعے کو دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ، پھر پہلے بچوں کی بازیابی کی کارروائی کہا گیا۔
بعدازاں، واقعے کی ویڈیو منظر عام آنے پر مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد جبکہ دوسرے کو دہشت گردوں کا سہولت کار قرار دیا گیا۔
واقعہ ذرائع ابلاغ پر آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے اِس کا نوٹس لیا تھا اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔
سانحے پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کا اعلان کیا تھا۔
واقعہ کے بعد سی ٹی ڈی کے اُس وقت کے آئی جی رائے طاہر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ لیکن، چند ہی دنوں بعد اُنہیں دوبارہ آئی جی سی ٹی ڈی بحال کر دیا گیا تھا۔