|
نئی دہلی—بھارت میں حزبِ اختلاف کی بعض جماعتوں، مسلم تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے ریاست ہریانہ میں مبینہ گائے محافظوں کے ہاتھوں ایک مسلمان شخص کی ہلاکت اور مہاراشٹر میں ایک ٹرین کے اندر ایک بزرگ مسلمان کو زد و کوب کیے جانے کے واقعات کی مذمت اور سخت کارروائی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چوں کہ جموں و کشمیر اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہو چکا ہے اور آئندہ مہینوں میں مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ حکمراں جماعت کو سیاسی فائدہ پہنچ سکے۔
جموں و کشمیر میں 18، 25 ستمبر اور یکم اکتوبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے جب کہ ہریانہ میں پانچ ستمبر کو پولنگ ہوگی۔ ووٹوں کی گنتی آٹھ اکتوبر کو ہوگی۔
اپوزیشن جماعت کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے سوشل میڈیا پر ان حملوں کے اسکرین شاٹس شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ نفرت کو سیاسی ہتھیار بنا کر اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے والے ملک بھر میں خوف کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔
ان کے بقول حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بھیڑ کی شکل میں نفرت پھیلانے والے قانون کو چیلنج کرتے ہوئے کھلے عام تشدد کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سے ان کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ 27 اگست کو ہریانہ کے چرخی دادری میں مغربی بنگال کے ایک مزدور 25 سالہ صابر ملک کو مبینہ گائے کے محافظوں کے ہاتھوں بیف کھانے کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ان کی موت ہو گئی۔
صابر قریب کی ایک جھگی بستی کئ مکین تھے۔ وہ کباڑ کا کام کرتے تھے۔
رپورٹس کے مطابق گو رکشکوں نے ان کو کباڑ فروخت کرنے کے بہانے بلایا اور یہ کہتے ہوئے کھلے عام ان پر تشدد کیا کہ وہ بیف کھاتے ہیں۔
کچھ لوگوں کے روکنے پر وہ انھیں دوسری جگہ لے گئے اور اس قدر زدو کوب کیا کہ وہ جاں بر نہ ہو سکے۔
رپورٹس کے مطابق ایک روز قبل مذکورہ جھگی بستی میں بھی کچھ لوگ گئے تھے اور گھروں میں کھانے کو یہ کہہ کر چیک کرنے لگے کہ وہ گائے کا گوشت کھا رہے ہیں۔
اس دوران انھوں نے بستی کے کچھ لوگوں پر بھی تشدد کیا تھا جب کہ جھگی بستی کے رہائشیوں کا کہنا تھا کہ وہ گائے کا نہیں بلکہ بھینس کا گوشت ہے۔
پولیس نے اس معاملے میں سات افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں دو نابالغ بھی شامل ہیں۔
SEE ALSO: سول کوڈ سے متعلق وزیرِ اعظم کے بیان پر بھارت میں تنازعقبل ازیں 23 اگست کو ہریانہ کے فرید آباد میں مبینہ گائے محافظوں نے 30 کلومیٹر تک ایک کار کا پیچھا کرتے ہوئے گائے کے اسمگلر کے شبہے میں ایک نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
بعد ازاں اس نوجوان کی شناخت آرین مشرا کے طور پر ہوئی جو 12 ویں کا طالب علم تھا۔
اس معاملے میں پانچ افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔
اسی طرح ایک 72 سالہ شخص اشرف علی سید حسین بذریعہ ٹرین مہاراشٹر کے جلگاؤں سے کلیان جنکشن جا رہے تھے۔
ان کے مطابق ٹرین میں سیٹ پر بیٹھنے کے بارے میں کچھ نوجوانوں کے ساتھ تنازع ہو گیا۔
نوجوانوں نے جو خود کو ایک ہندو شدت پسند جماعت ’بجرنگ دل‘ سے وابستہ بتا رہے تھے، بیف رکھنے کے الزام میں ان پر حملہ کر دیا۔
رپورٹس کے مطابق ان کے چہرے، آنکھیں اور سینے پر ضربیں لگائی گئیں جس کی وجہ سے ان کا چہرہ اور آنکھ پر ورم آگیا اور آنکھ کے حلقے سیاہ ہو گئے۔
SEE ALSO: بھارت میں اوقاف کا متنازع بل؛ اپوزیشن اور مسلم تنظیمیں کیوں مخالفت کر رہی ہیں؟ان کے بقول ان کے گھر کی خواتین کی عصمت دری کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ ان کے کپڑے پھاڑ دیے اور موبائل چھین لیا گیا۔ وہ بڑی مشکل سے ریل گاڑی سے اترنے میں کامیاب ہوئے۔
حملہ آوروں نے اس واقعے کی ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی۔
انسانی حقوق کے بعض کارکنوں کو جب اس واقعے کا علم ہوا تو وہ ان کو لے کر تھانے گئے اور ایف آئی آر درج کروائی۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے ملزموں کے خلاف اتنی ہلکی دفعات لگائی ہیں کہ اگلے روز ان کی ضمانت ہو گئی۔
حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ان واقعات کے لیے حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کی مذمت کی اور کہا کہ ملزموں کے خلاف مناسب دفعات کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔
بی جے پی کے قومی ترجمان سید شاہنواز حسین نے راہل گاندھی کے بیان کی تردید کی اور کہا کہ بی جے پی نفرت کی سیاست میں ملوث نہیں ہے۔ یہ کانگریس ہے جو ملک میں نفرت اور خوف کی سیاست کر رہی ہے۔
ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی نے گو رکشکوں کے ہاتھوں ایک مسلمان کی ہلاکت کو افسوسناک قرار دیا۔ لیکن حملہ آوروں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کو ہجوم کے ہاتھوں حملہ نہیں کہنا چاہیے۔ عوام گائے کو متبرک سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کے جذبات کا مشتعل ہو جانا فطری ہے۔
SEE ALSO: ہوٹلوں اور ڈھابوں پر نام لکھنے کا معاملہ: بھارتی سپریم کورٹ کا حکم امتناعتجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انتخابات کے پیشِ نظر ہی مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دہلی یونیورسٹی کے ہندی شعبے میں استاد اور سینئر تجزیہ کار و انسانی حقوق کے کارکن پروفیسر اپوروانند کا کہنا ہے کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ایک سیاسی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد سے ووٹ مل سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دس برس کے دوران ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل اور ہیٹ اسپیچ وغیرہ کے واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں اور مسلمانوں پر حملے کرنے والوں کو پوری آزادی ملی ہوئی ہے۔
ان کے مطابق اب مسلمانوں کو مارنا کوئی سنگین جرم نہیں رہا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پولیس اب یہی سمجھتی ہے۔ اسی لیے وہ ایسے واقعات میں معمولی دفعات گاتی ہے۔ وہ اسے بی جے پی کی سیاست کا حصہ مانتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کا مقصد مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔
SEE ALSO: مودی کو انتخابات میں لگنے والے دھچکے سے مسلمانوں کے احساس تحفظ میں اضافہجمعیت علماء ہند کے مطابق سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے باوجود اس قسم کی بربریت رک نہیں رہی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو سیاسی سر پرستی حاصل ہے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہیں۔
جمعی علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ایک بیان میں کہا کہ چوں کہ اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے ہجوم کے حملوں کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہ صرف قتل نہیں بلکہ بربریت کی انتہا ہے کہ ایک بھیڑ اکٹھی ہو جائے اور کسی کو زد و کوب کرکے ہلاک کر دے۔
سینئر تجزیہ کار اروند کمار سنگھ کہتے ہیں کہ ان واقعات کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان واقعات سے بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پارلیمانی انتخابات کے نتائج سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ صرف مسلمانوں کے خلاف ہی کارروائی نہیں کرتے بلکہ حکومت کے مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کے لیے اس قسم کی وارداتیں انجام دی جاتی ہیں۔ البتہ مسلمانوں پر حملے زیادہ ہو رہے ہیں۔ کیوں کہ ان واقعات سے مذہب کے نام پر ہندوؤں کے ایک طبقے کو متحد کیا جا سکے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اترپردیش کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس وکرم سنگھ نے ایک نشریاتی ادارے ’اے بی پی نیوز‘ کے پروگرام میں حصہ لیتے ہوئے ہریانہ پولیس کو قصور وار ٹھہرایا اور کہا اگرایسے واقعات میں سخت کارروائی ہوئی ہوتی تو دوبارہ نہیں ہوتے۔
انھوں نے ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کے بیان پر اعتراض کیا اور کہا کہ انھیں آئین و قانون کا وفادار ہونا چاہیے مذہبی جذبات کا نہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسلم مخالف تشدد میں ملوث سارے لوگ بی جے پی سے وابستہ نہیں ہیں۔ بلکہ ملک میں جو ماحول بنا دیا گیا ہے اس کی وجہ سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔
اروند کمار کہتے ہیں کہ چوں کہ حکومت ایسے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے اس لیے پولیس بھی ان کے خلاف سخت کارروائی نہیں کرتی۔
تاہم اپوروانند نے راہل گاندھی کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔
ان کے مطابق حزبِ اختلاف کی جماعتیں مسلمانوں کی حمایت میں بولنے سے اس لیے ڈرتی ہیں کہ ان کو اندیشہ ہے کہ اس سے وہ ہندو ووٹ سے محروم ہو جائیں گی۔
مولانا ارشد مدنی کے مطابق یہ مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے ان تمام سیاسی جماعتوں سے جو خود کو سیکولر کہتی ہیں، اپیل کی ہے کہ وہ سامنے آئیں اور سخت قوانین بنا کر سیاسی سطح پر اس مسئلے کو حل کریں۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتی اور جو بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
اس کا دعویٰ ہے کہ وہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ’سب کا ساتھ سب کی ترقی‘ کے نعرے پر عمل پیرا ہے۔