پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تین میچز پر مشتمل سیریز کا تیسرا میچ بھی میزبان ٹیم کے نام رہا، تیسرے اور آخری ٹیسٹ کے چوتھے روز آسٹریلیا نے گرین کیپس کو آٹھ وکٹوں سے ہرا کر سیریز میں وائٹ واش کر دیا۔
سڈنی میں کھیلے گئے میچ کے چوتھے دن پاکستان نے آسٹریلیا کو جیت کے لیے 130 رنز کا ہدف دیا تھا جسے پیٹ کمنز کی ٹیم نے دو وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا۔
اپنا آخری ٹیسٹ میچ کھیلنے والے ڈیوڈ وارنر نے اس اننگز میں بھی نصف سینچری بنا کر ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا، مارنس لبوشین نے 62 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیل کر ان کا ساتھ دیا۔
اس سے قبل دن کے آغاز میں پاکستانی ٹیم دوسری اننگز میں 115 رنز بناکر آؤٹ ہو گئی تھی، ڈیبیو ٹیسٹ کھیلنے والے صائم ایوب 33 رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر رہے تھے۔
سیریز کے پہلے میچ میں پاکستان کو 360 رنز سے جب کہ دوسرے میچ میں 79 رنز کے مارجن سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
عامر جمال کی آل راؤنڈ کارکردگی
تین میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کو ایک بھی میچ میں کامیابی نہیں ملی۔ البتہ سیریز کے دوران ڈیبیو کرنے والے عامر جمال نے سب کو اپنی کارکردگی سے حیران کردیا۔
نہ صرف انہوں نے اپنی پہلی ہی ٹیسٹ سیریز میں 18 وکٹیں حاصل کیں بلکہ تیسرے ٹیسٹ میں 82 رنز کی اننگز کھیل کر پاکستان کو مشکلات سے بھی نکالا۔
سیریز کے دوران انہوں نے دو مرتبہ ایک ہی اننگز میں چھ چھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، صرف آسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز سیریز میں ان سے زیادہ وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے۔
ستائیس سالہ عامر جمال کو تیسرے ٹیسٹ میں چھ وکٹیں حاصل کرنے اور مجموعی طور پر 100 رنز بنانے پر میچ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا۔
شان مسعود کپتانی سے متاثر کرنے میں کامیاب
آسٹریلیا کے خلاف سیریز سے قبل جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کی جگہ شان مسعود کو کپتان نامزد کیا تھا تو سابق کپتان کے مداحوں کو اچھا نہیں لگا تھا۔
لیکن اپنی جارحانہ کپتانی سے سیریز کے اختتام تک شان مسعود ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین دونوں کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوئے، ان کی 'اٹیکنگ اپروچ' کو کئی سابق کرکٹرز نے خوب سراہا۔
نہ صرف انہوں نے سیریز کے دوران بلے بازی کرتے ہوئے تیز رفتاری سے رنز بنائے بلکہ تین میں سے دو ٹیسٹ میچ پاکستان کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن سائیڈ کے خلاف بہتر پوزیشن پر پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
ڈیوڈ وارنر کے کریئر کا اختتام
سیریز کے آغاز سے قبل سابق ٹیسٹ کرکٹر مچل جانسن نے ڈیوڈ وارنر کی فیرویل سیریز پر سوال اٹھایا تھا جس کا جواب اپنی آخری سیریز کھیلنے والے آسٹریلوی اوپنر نے اپنے بلے سے دیا۔
انہوں نے تین ٹیسٹ میچز کے دوران 299 رنز اسکور کر کے آسٹریلیا کو اچھا آغاز بھی فراہم کیا اور دونوں ٹیموں کی جانب سے سیریز میں سینچری بنانے والے واحد کھلاڑی بھی رہے۔
تیسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز کے لیے کریز پر آنے سے پہلے جہاں انہیں پاکستان کرکٹ ٹیم نے گارڈ آف آنر دیا وہیں دوسری اننگز میں انہوں نے ذمے داری سے بیٹنگ کرتے ہوئے 57 رنز کی میچ وننگ اننگز کھیلی۔
انہوں نے اپنے ٹیسٹ کریئر کے دوران 112 ٹیسٹ میچز میں 8786 رنز بنائے جس میں 26 سینچریوں کے ساتھ ساتھ 37 نصف سینچریاں بھی شامل ہیں، اس کے ساتھ ہی انہوں نے فیلڈ پر 91 کیچز بھی تھامے۔
مچل مارش ٹاپ اسکورر، پیٹ کمنز ٹاپ وکٹ ٹیکر رہے
بینو قادر ٹرافی کے اس ایڈیشن میں بلے بازوں سے زیادہ بالرز کا راج رہا، دونوں ٹیموں کی جانب سے صرف ایک بلے باز ڈیوڈ وارنر ہی سینچری بنانے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن اس کے باوجود وہ سیریز کے ٹاپ اسکورر نہیں رہے، یہ اعزاز انہی کے ساتھی کھلاڑی مچل مارش کے نام رہا جنہوں نے تین میچز میں 86 رنز فی اننگز کی اوسط سے 344 رنز اسکور کیے، وہ سیریز میں چار نصف سینچریوں کے ساتھ سب سے کامیاب بلے باز رہے۔
آسٹریلوی اوپنرز ڈیوڈ وارنر 299 اور عثمان خواجہ 220 رنز کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے، پاکستان کی جانب سے دو میچز میں 193 رنز بنانے والے محمد رضوان سب سے کامیاب بلے باز رہے۔
کپتان شان مسعود 181 اور اپنی پہلی سیریز کھیلنے والے عامر جمال 143 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔
بالرز کی بات کی جائے تو آسٹریلیا کے پیٹ کمنز 19 وکٹوں کے ساتھ سب سے آگے تھے، انہوں نے نہ صرف تین اننگز میں پانچ یا اس سے زائد کھلاڑی آؤٹ کیے بلکہ ایک میچ میں مجموعی طور پر 10 وکٹیں بھی حاصل کی تھیں۔
پاکستان کے عامر جمال 18 وکٹوں کے ساتھ دوسرے کامیاب بالر رہے، انہوں نے دو بار ایک ہی اننگز میں چھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور ڈیبیو سیریز میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے پاکستانی پیسر بھی بن کر سامنے آئے۔
سیریز کے دوران آسٹریلوی آف اسپنر نیتھن لائن 13 اور پیسر مچل اسٹارک 12 وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے۔
ناقص فیلڈنگ
بیٹنگ اور بالنگ کے شعبے میں تو پاکستان کے چند کھلاڑیوں نے اچھی انفرادی کارکردگی دکھائی، لیکن سیریز کے دوران جس شعبے نے سب سے زیادہ مایوس کیا وہ فیلڈنگ کا تھا۔
پاکستانی فیلڈزر نے بالخصوص وکٹوں کے عقب میں کھڑے ہونے والے کھلاڑیوں نے بالرز کا ساتھ نہیں دیا۔ پہلے ٹیسٹ میں سرفراز احمد نے ایک اہم اسٹمپ مس کیا تو دوسرے ٹیسٹ میں وکٹ کیپر محمد رضوان نے بائی کے 20 اضافی رنز جانے دیے۔
یہی نہیں، عبداللہ شفیق نے پہلے دو میچز میں اہم مواقع پر ڈیوڈ وارنر کے دو کیچز گرائے تو سلپ میں کھڑے صائم ایوب تیسرے ٹیسٹ میں آسٹریلوی اوپنر کا آسان کیچ پکڑنے سے قاصر رہے۔
پاکستان ٹیم کے ڈائریکٹر محمد حفیظ سیریز کے دوران امپائرنگ پر بھی نکتہ چینی کرتے رہے، ان کے خیال میں امپائرز کے کئی فیصلے آسٹریلیا کے حق میں گئے جس کی وجہ سے پاکستان کو سیریز میں شکست ہوئی۔
مبصرین نے اہم دورے کے لیے منتخب کیے جانے والے اسکواڈ اور میچز کے لیے سلیکٹ ہونے والی ٹیم پر بھی انگلیاں اٹھائیں، ان کے خیال میں جہاں شاہین شاہ آفریدی کو تیسرے ٹیسٹ میں ریسٹ نہیں دینا چاہیے تھا وہیں پہلے دو میچز میں اسپنر کے ساتھ جانا چاہیے تھا۔
سیریز کے دوران لیگ اسپنر ابرار احمد اور لیفٹ آرم اسپنر نعمان علی تو زخمی ہو کر باہر ہوئے ہی، بابر اعظم بھی کپتانی سے سبک دوشی کے بعد بجھے بجھے نظر آئے۔
پوری سیریز کے دوران انہوں نے نہ تو کوئی سینچری بنائی، نہ ہی 50 رنز کا ہندسہ عبور کیا، ان کے مجموعی رنز کی تعداد 126 رہی جو انہوں نے چھ اننگز میں 21 رنز فی اننگز کی اوسط سے بنائے۔
اوپنر امام الحق اور مڈل آرڈر بلے باز سعود شکیل بھی مجموعی طور پر ناکام ہوئے، آل راؤنڈر فہیم اشرف اور فاسٹ بالر حسن علی کی سلیکشن پر کئی مبصرین نے اعتراض کیا تھا، دونوں ہی سیریز میں خاطر خواہ کارکردگی دکھانے سے قاصر رہے۔