پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تین میچز پر مشتمل سیریز کا تیسرا میچ بھی میزبان ٹیم کے نام رہا، تیسرے اور آخری ٹیسٹ کے چوتھے روز آسٹریلیا نے گرین کیپس کو آٹھ وکٹوں سے ہرا کر سیریز میں وائٹ واش کر دیا۔
سڈنی میں کھیلے گئے میچ کے چوتھے دن پاکستان نے آسٹریلیا کو جیت کے لیے 130 رنز کا ہدف دیا تھا جسے پیٹ کمنز کی ٹیم نے دو وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا۔
اپنا آخری ٹیسٹ میچ کھیلنے والے ڈیوڈ وارنر نے اس اننگز میں بھی نصف سینچری بنا کر ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا، مارنس لبوشین نے 62 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیل کر ان کا ساتھ دیا۔
اس سے قبل دن کے آغاز میں پاکستانی ٹیم دوسری اننگز میں 115 رنز بناکر آؤٹ ہو گئی تھی، ڈیبیو ٹیسٹ کھیلنے والے صائم ایوب 33 رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر رہے تھے۔
سیریز کے پہلے میچ میں پاکستان کو 360 رنز سے جب کہ دوسرے میچ میں 79 رنز کے مارجن سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
David Warner and Marnus Labuschagne made fifties as Australia sealed an eight-wicket win in Sydney. #WTC25 | 📝 #AUSvPAK: https://t.co/9HGJrXtJyq pic.twitter.com/rab1NalJW0
— ICC (@ICC) January 6, 2024
عامر جمال کی آل راؤنڈ کارکردگی
تین میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کو ایک بھی میچ میں کامیابی نہیں ملی۔ البتہ سیریز کے دوران ڈیبیو کرنے والے عامر جمال نے سب کو اپنی کارکردگی سے حیران کردیا۔
نہ صرف انہوں نے اپنی پہلی ہی ٹیسٹ سیریز میں 18 وکٹیں حاصل کیں بلکہ تیسرے ٹیسٹ میں 82 رنز کی اننگز کھیل کر پاکستان کو مشکلات سے بھی نکالا۔
SCG SPECIAL 🌟Aamir Jamal%27s sensational six-fer, his second of the series! 🙌🎥 @cricketcomau #AUSvPAK pic.twitter.com/37EgVOJWiU
— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) January 5, 2024
سیریز کے دوران انہوں نے دو مرتبہ ایک ہی اننگز میں چھ چھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، صرف آسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز سیریز میں ان سے زیادہ وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے۔
ستائیس سالہ عامر جمال کو تیسرے ٹیسٹ میں چھ وکٹیں حاصل کرنے اور مجموعی طور پر 100 رنز بنانے پر میچ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا۔
Aamir Jamal is the player of the match for his all-round brilliance.A splendid performance by him in his debut series 👏#AUSvPAK pic.twitter.com/pv9WM4p0ra
— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) January 6, 2024
شان مسعود کپتانی سے متاثر کرنے میں کامیاب
آسٹریلیا کے خلاف سیریز سے قبل جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کی جگہ شان مسعود کو کپتان نامزد کیا تھا تو سابق کپتان کے مداحوں کو اچھا نہیں لگا تھا۔
لیکن اپنی جارحانہ کپتانی سے سیریز کے اختتام تک شان مسعود ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین دونوں کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوئے، ان کی 'اٹیکنگ اپروچ' کو کئی سابق کرکٹرز نے خوب سراہا۔
A nice gesture from Pakistan as captain Shan Masood presented David Warner with a Babar Azam shirt signed by Pakistani players. #DavidWarner #PAKvsAUS pic.twitter.com/ZIF6ZskmKI
— Nawaz 🇵🇰 (@Rnawaz31888) January 6, 2024
نہ صرف انہوں نے سیریز کے دوران بلے بازی کرتے ہوئے تیز رفتاری سے رنز بنائے بلکہ تین میں سے دو ٹیسٹ میچ پاکستان کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن سائیڈ کے خلاف بہتر پوزیشن پر پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
ڈیوڈ وارنر کے کریئر کا اختتام
سیریز کے آغاز سے قبل سابق ٹیسٹ کرکٹر مچل جانسن نے ڈیوڈ وارنر کی فیرویل سیریز پر سوال اٹھایا تھا جس کا جواب اپنی آخری سیریز کھیلنے والے آسٹریلوی اوپنر نے اپنے بلے سے دیا۔
انہوں نے تین ٹیسٹ میچز کے دوران 299 رنز اسکور کر کے آسٹریلیا کو اچھا آغاز بھی فراہم کیا اور دونوں ٹیموں کی جانب سے سیریز میں سینچری بنانے والے واحد کھلاڑی بھی رہے۔
Nobody did it like David Warner. A fitting farewell at the @scg to a giant of our game! pic.twitter.com/iTiD4Ex2mK
— Cricket Australia (@CricketAus) January 6, 2024
تیسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز کے لیے کریز پر آنے سے پہلے جہاں انہیں پاکستان کرکٹ ٹیم نے گارڈ آف آنر دیا وہیں دوسری اننگز میں انہوں نے ذمے داری سے بیٹنگ کرتے ہوئے 57 رنز کی میچ وننگ اننگز کھیلی۔
انہوں نے اپنے ٹیسٹ کریئر کے دوران 112 ٹیسٹ میچز میں 8786 رنز بنائے جس میں 26 سینچریوں کے ساتھ ساتھ 37 نصف سینچریاں بھی شامل ہیں، اس کے ساتھ ہی انہوں نے فیلڈ پر 91 کیچز بھی تھامے۔
مچل مارش ٹاپ اسکورر، پیٹ کمنز ٹاپ وکٹ ٹیکر رہے
بینو قادر ٹرافی کے اس ایڈیشن میں بلے بازوں سے زیادہ بالرز کا راج رہا، دونوں ٹیموں کی جانب سے صرف ایک بلے باز ڈیوڈ وارنر ہی سینچری بنانے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن اس کے باوجود وہ سیریز کے ٹاپ اسکورر نہیں رہے، یہ اعزاز انہی کے ساتھی کھلاڑی مچل مارش کے نام رہا جنہوں نے تین میچز میں 86 رنز فی اننگز کی اوسط سے 344 رنز اسکور کیے، وہ سیریز میں چار نصف سینچریوں کے ساتھ سب سے کامیاب بلے باز رہے۔
MOST RUNS FOR PAKISTAN 🇵🇰🏏 Mohammad Rizwan 193🏏 4th highest overall in the series🏏3rd Highest avg 48.25 in the series🏏 2nd best strike rate 70.69 in the seriesLadies and Gentlemen, this guy didn%27t played the first match for Pakistan 👏 👏 👏#PAKvAUS #Rizwan pic.twitter.com/aoKdyko6Xj
— Ahmer Najeeb Satti (@AhmerNajeeb) January 6, 2024
آسٹریلوی اوپنرز ڈیوڈ وارنر 299 اور عثمان خواجہ 220 رنز کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے، پاکستان کی جانب سے دو میچز میں 193 رنز بنانے والے محمد رضوان سب سے کامیاب بلے باز رہے۔
کپتان شان مسعود 181 اور اپنی پہلی سیریز کھیلنے والے عامر جمال 143 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔
بالرز کی بات کی جائے تو آسٹریلیا کے پیٹ کمنز 19 وکٹوں کے ساتھ سب سے آگے تھے، انہوں نے نہ صرف تین اننگز میں پانچ یا اس سے زائد کھلاڑی آؤٹ کیے بلکہ ایک میچ میں مجموعی طور پر 10 وکٹیں بھی حاصل کی تھیں۔
19 wickets at an average of 12: Pat Cummins is the player of the series! #AUSvPAK pic.twitter.com/YcgutYtnaB
— 7Cricket (@7Cricket) January 6, 2024
پاکستان کے عامر جمال 18 وکٹوں کے ساتھ دوسرے کامیاب بالر رہے، انہوں نے دو بار ایک ہی اننگز میں چھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور ڈیبیو سیریز میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے پاکستانی پیسر بھی بن کر سامنے آئے۔
سیریز کے دوران آسٹریلوی آف اسپنر نیتھن لائن 13 اور پیسر مچل اسٹارک 12 وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے۔
ناقص فیلڈنگ
بیٹنگ اور بالنگ کے شعبے میں تو پاکستان کے چند کھلاڑیوں نے اچھی انفرادی کارکردگی دکھائی، لیکن سیریز کے دوران جس شعبے نے سب سے زیادہ مایوس کیا وہ فیلڈنگ کا تھا۔
پاکستانی فیلڈزر نے بالخصوص وکٹوں کے عقب میں کھڑے ہونے والے کھلاڑیوں نے بالرز کا ساتھ نہیں دیا۔ پہلے ٹیسٹ میں سرفراز احمد نے ایک اہم اسٹمپ مس کیا تو دوسرے ٹیسٹ میں وکٹ کیپر محمد رضوان نے بائی کے 20 اضافی رنز جانے دیے۔
Reason of Pakistan Defeat in a series? Batting or Drop Catches? pic.twitter.com/mABe6LAiT9
— ٰImran Siddique (@imransiddique89) January 6, 2024
یہی نہیں، عبداللہ شفیق نے پہلے دو میچز میں اہم مواقع پر ڈیوڈ وارنر کے دو کیچز گرائے تو سلپ میں کھڑے صائم ایوب تیسرے ٹیسٹ میں آسٹریلوی اوپنر کا آسان کیچ پکڑنے سے قاصر رہے۔
پاکستان ٹیم کے ڈائریکٹر محمد حفیظ سیریز کے دوران امپائرنگ پر بھی نکتہ چینی کرتے رہے، ان کے خیال میں امپائرز کے کئی فیصلے آسٹریلیا کے حق میں گئے جس کی وجہ سے پاکستان کو سیریز میں شکست ہوئی۔
مبصرین نے اہم دورے کے لیے منتخب کیے جانے والے اسکواڈ اور میچز کے لیے سلیکٹ ہونے والی ٹیم پر بھی انگلیاں اٹھائیں، ان کے خیال میں جہاں شاہین شاہ آفریدی کو تیسرے ٹیسٹ میں ریسٹ نہیں دینا چاہیے تھا وہیں پہلے دو میچز میں اسپنر کے ساتھ جانا چاہیے تھا۔
Abrar Ahmed - injury updateDetails here ➡️ https://t.co/JYWhPfRb3R#AUSvPAK
— PCB Media (@TheRealPCBMedia) January 2, 2024
سیریز کے دوران لیگ اسپنر ابرار احمد اور لیفٹ آرم اسپنر نعمان علی تو زخمی ہو کر باہر ہوئے ہی، بابر اعظم بھی کپتانی سے سبک دوشی کے بعد بجھے بجھے نظر آئے۔
پوری سیریز کے دوران انہوں نے نہ تو کوئی سینچری بنائی، نہ ہی 50 رنز کا ہندسہ عبور کیا، ان کے مجموعی رنز کی تعداد 126 رہی جو انہوں نے چھ اننگز میں 21 رنز فی اننگز کی اوسط سے بنائے۔
اوپنر امام الحق اور مڈل آرڈر بلے باز سعود شکیل بھی مجموعی طور پر ناکام ہوئے، آل راؤنڈر فہیم اشرف اور فاسٹ بالر حسن علی کی سلیکشن پر کئی مبصرین نے اعتراض کیا تھا، دونوں ہی سیریز میں خاطر خواہ کارکردگی دکھانے سے قاصر رہے۔