ڈاکٹر شاہ نواز کیس؛ قبر کشائی کے بعد پوسٹ مارٹم میں موت سے قبل تشدد کا انکشاف

  • ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے پوسٹ مارٹم کے لیے 16 ستمبر کو قبر کشائی کی گئی تھی۔
  • ابتدائی رپورٹ میں مقتول کے جسم پر تشدد اور ہڈیاں ٹوٹنے کے شواہد ملے ہیں۔
  • ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کی نچلی چار پسلیوں میں فریکچر سے دراصل ان کے سینے کے پچھلے حصے پر طاقت کے استعمال کا برملا اشارہ ملتا ہے: ابتدائی رپوٹ
  • لاش کو جلانے کا مقصد ہی شواہد چھپانا تھا: ڈاکٹر شاہ نواز کے اہل خانہ کا مؤقف

کراچی—توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار اور بعدازاں جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیے گئے ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تشدد کے شواہد ملے ہیں۔

ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ٹوٹی ہوئی ہڈیوں سمیت جسم پر متعدد زخموں کا انکشاف ہوا ہے۔ ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے پوسٹ مارٹم کے لیے میڈیکل بورڈ کی نگرانی میں 16 اکتوبر کو ان کی قبر کشائی کی گئی تھی۔

اتوار کو سامنے آنے والی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اسپیشل میڈیکل بورڈ کے اراکین کی متفقہ رائے ہے کہ ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے سینے پر ہتھیار مارنے کے زخم تھے جو موت کا سبب بننے کے لیے کافی ہیں۔

رپورٹ ڈاکٹر وسیم خان، ڈاکٹر طاہر قریشی، پروفیسر ڈاکٹر واحد، ڈاکٹر عبدالصمد میمن اور پیتھالوجسٹ ڈاکٹر راحیل خان کے دستخط سے جاری ہوئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کی نچلی چار پسلیوں میں فریکچر سے دراصل ان کے سینے کے پچھلے حصے پر طاقت کے استعمال کا برملا اشارہ ملتا ہے۔ یہ نتائج جسمانی معائنے اور ایکسرے رپورٹس کی بنیاد پر اخذ کیے گئے ہیں جس میں انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر شاہ نواز کی چار پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔

ڈاکٹر کنبھر کے اہل خانہ نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میرپورخاص میں پہلا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں کے خلاف مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈی ایچ کیو میر پور خاص میں ڈاکٹر شاہ نواز کی پوسٹ مارٹم کی جو رپورٹ تیار کی گئی تھی اس میں صرف انہیں گولیاں لگنے کا ذکر تھا جب کہ تشدد کے نشانات کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہ نواز کے کزن جنید کنبھر نے کہا کہ رپورٹ سے معلوم ہورہا ہے کہ قتل سے قبل ڈاکٹر شاہ نواز پر بھاری اسلحے سے تشدد کیا گیا ہے جس سے ان کی ہڈیوں اور پسلیوں پر زخم آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ اس قتل کی عدالتی تحقیقات کی جائیں اور جب تک کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکلتا اور انصاف نہیں ملتا ہمارا خاندان یہ قانونی جنگ لڑتا رہے گا۔

حکومت سندھ پہلے ہی صوبائی ہائی کورٹ سے باضابطہ طور پر ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے متنازع قتل کی عدالتی تحقیقات کرانے کی درخواست کرچکی ہے۔

انکوائری کی درخواست وزیرِ داخلہ سندھ ضیاالحسن لنجار کی جانب سے کی گئی ہے۔ درخواست میں 18 ستمبر 2024 کو تھانہ سندھڑی میرپور خاص کی حدود میں ہونے والے قتل کے پس پردہ محرکات کا پتا لگانے کی استدعا کی گئی ہے۔

SEE ALSO: عمر کوٹ میں توہینِ مذہب کے الزام میں ڈاکٹر کا قتل: 'پولیس نے کہا بری خبر سننے کے لیے تیار ہوجاؤ'

واضح رہے کہ 19 ستمبر کو ڈاکٹر شاہ نواز کے خلاف مبینہ طور پر فیس بک پر ’گستاخانہ مواد‘ پوسٹ کے خلاف مذہبی جماعتوں خے احتجاج کے بعد تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جس کے بعد انھیں کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔

تاہم پولیس نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر شاہ نواز فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے تھے۔ واقعے کے ایک ہفتے بعد وزیر داخلہ سندھ ضیاالحسن نے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ عمر کوٹ میں ڈاکٹر شاہ نواز کو جعلی پولیس مقابلہ میں مارا گیا اور مقابلے میں ملوث اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تحقیقات میں الزام درست ثابت ہونے پر اہلکاروں کو معطل کیا گیا اور متاثرین جسے ذمہ دار قرار دیں گے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائےگی۔

اس کے بعد ڈاکٹر شاہ نواز کے قتل کا مقدمہ درج کر کے اس میں ڈی آئی جی جاوید جسکانی ، ایس ایس پی چوہدری اسد اور دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔

آئی جی سندھ کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی نے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ڈاکٹر شاہ نواز کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا ہے۔

اس واقعے کے بعد عمر کوٹ میں سول سوسائٹی کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا اور انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ قتل کے بعد ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کی لاش کو جلانے کی کوشش کی گئی تھی اور لاش کی بے حرمتی نے عوام کو مزید مشتعل کردیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

عمر کوٹ واقعہ: ’میرا بیٹا تو چلا گیا، اب دوسروں کو انتہا پسندی سے بچالیں‘

ڈاکٹر شاہ نواز کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ لاش کو جلانے کا مقصد ہی اصل حقائق اور محرکات کو چھپانا تھا ۔ اب سامنے آنے والی میڈیکل رپورٹ سے واضح ہورہا ہے کہ شاہ نواز کو قتل سے قبل بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی نے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

دوسری جانب مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پولیس مقابلے میں ڈاکٹر شہباز کنبھر کے قتل کو درست قرار دیتی ہے اور معطل کیے گئے اہلکاروں کو بحال کرنے کا مطالبہ بھی کر چکی ہے۔