میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا۔ عام انتخابات سے صرف تین ہفتے پہلے سابق وزیراعظم کے خلاف عدالتی فیصلے کو بہت سے لوگ سیاسی قرار دے رہے ہیں۔ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ فیصلہ جو بھی آئے، اس کے اثرات عام انتخابات کے نتائج پر نظر آئیں گے۔ لیکن کیا یہ کوئی غیر متوقع فیصلہ ہو گا؟
مسلم لیگ ن کے سابق رکن قومی اسمبلی اور اب اس کے ناقد ایاز امیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ شاید میاں نواز شریف کے حق میں نہیں آئے گا۔ میاں نواز شریف پر بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں اور وہ ان کا خاطرخواہ جواب نہیں دے سکے۔
مسلم لیگ ن دفاعی پوزیشن میں ہے اور بہت دباؤ کا سامنا کر رہی ہے۔ اس کی سیاسی پوزیشن اس مقدمے سے کمزور ہوئی ہے۔ کل کے فیصلے کے بعد اس کے لیے حالات مزید خراب ہوں گے۔ اس کے لیے کسی ہمدردی کی لہر نہیں اٹھے گی اور اسے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہو گا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے مطابق بیشتر قانون دانوں کی رائے یہ ہے کہ نواز شریف کے خلاف مقدمہ مضبوط نہیں ہے۔ نیب ان کے خلاف ٹھوس شواہد نہیں لاسکا اور الزامات ثابت نہیں کر سکا۔ بہرحال ان کے خلاف فیصلہ سنایا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس فیصلے سے مسلم لیگ ن کا کوئی نقصان نہیں ہو گا اور اس کے کارکن الیکشن سے پہلے متحرک ہوجائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ احتساب کے ادارے آٹھ آٹھ سال پرانے کیس نکال رہے ہیں اور انتخابی امیدواروں کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ نیب کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ہر روز کہتے ہیں کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ہر روز ان کا کوئی نہ کوئی اقدام ایسا ہوتا ہے جس کے اثرات سیاسی ہوتے ہیں۔ جب ان کا یہ حال ہے تو چھوٹی عدالتوں کے بارے میں کیا کہا جائے۔
سینئر اینکرپرسن حامد میر نے اس معاملے کا ایک نیا رخ پیش کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مقدمے کی کارروائی ساڑھے نو مہینے تک جاری رہی۔ مجھے احساس ہوا کہ کمرہ عدالت میں سماعت کچھ اور ہوتی تھی اور باہر نکل کر رپورٹرز کے سوالات اور میاں نواز شریف کے جوابات کچھ اور ہوتے تھے۔ اس مقدمے کو سیاسی بنا دیا گیا اور اس کی کارروائی پر دھیان نہیں دیا گیا۔ اگر اس کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ فیصلہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف ہی آئے گا۔ وطن واپسی پر اگر انھیں گرفتار کیا گیا تو مسلم لیگ ن کو سیاسی طور پر فائدہ ہو گا لیکن شریف خاندان کو ذاتی طور پر نقصان اٹھانا پڑے گا۔
حامد میر نے کہا کہ 1990 سے اب تک اسی طرح کے مقدمات بنتے رہے ہیں اور ان کے فیصلوں کا اثر انتخابات پر پڑتا رہا ہے۔ تاریخ خود کو دوہراتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں جس مقام پر بینظیر بھٹو کھڑی تھیں، آج وہاں میاں نواز شریف کھڑے ہیں۔
کیا الیکشن کے بعد محاذ آرائی کی سیاست ختم ہو جائے گی؟ کیا سیاسی استحکام ممکن ہو گا؟
حامد میر نے بتایا کہ انھوں نے آصف زرداری، شہباز شریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمان، اسفندیار ولی، حاصل بزنجو اور اختر مینگل سمیت تمام بڑے راہنماؤں سے بات کی ہے۔ سب متفق ہیں کہ عام انتخابات کے بعد بھی سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ اس کی وجہ یہ کہ انتخابات ابھی ہوئے نہیں لیکن ان پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ جس طرح 2013 کے انتخابی نتائج کو عمران خان نے تسلیم نہیں کیا تھا، ایسا لگتا ہے کہ 2018 کے انتخابی نتائج کو مسلم لیگ ن مسترد کر دے گی۔ عمران خان کا وزیراعظم بننا اگر ممکن ہے تو ان کے خلاف دھرنے بھی خارج از امکان نہیں۔
مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ یہ محاذ آرائی ایسی ہے کہ اگر تحریک انصاف الیکشن جیت جائے اور عمران خان وزیراعظم بن جائیں تو وہ بھی سکون سے حکومت نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ جو روش ہمارے ہاں اختیار کر لی گئی ہے اور مقتدر اداروں نے بعض عناصر کی حوصلہ کی ہے تو لگتا یہ ہے کہ اب بہت دیر تک چین نہیں آئے گا اور اسی طریقے سے ایک دوسرے کو زچ کیا جاتا رہے گا۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ بے چینی سیاست کا حصہ ہے، یہ کوئی غیر معمولی کیفیت نہیں ہے۔ پاکستان میں دھرنوں کے سوا سیاست میں زیادہ تلاطم نہیں رہا۔ الزامات ضرور لگتے رہے ہیں لیکن الزامات بھی نہ ہوں تو پھر پھیکی سیاست کس کام کی؟