جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان کو دو روز کی مہلت دیتے ہیں کہ وہ خود ہی مستعفی ہو جائیں ورنہ عوام کا یہ سمندر قدرت رکھتا ہے کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں گھس کر انہیں خود ہی گرفتار کر لے۔
آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے۔ لیکن اداروں کو اپنی غیر جانبداری ثابت کرنا ہو گی۔
حاضرین کی جانب سے ڈی چوک جانے کے نعروں پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہ نعرے آصف زرداری بھی سن رہے ہیں اور نواز شریف بھی۔ اور وہ قوتیں بھی یہ سن رہی ہیں جنہیں ہم سنانا چاہتے ہیں۔
فوج کے ترجمان کا ردعمل
فوج کے ترجمان میجرجنرل آصف غفور نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ فضل الرحمان بتا دیں وہ کس ادارےکی بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری سپورٹ جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ساتھ ہوتی ہے۔ فوج نےالیکشن میں آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اپنے تحفظات متعلقہ اداروں میں لے کر جائے اور سٹرکوں پر آ کر الزام تراشی نہ کرے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ کسی کو ملک کے استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کسی کو یقین دہانی نہیں کرائی
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم نے کسی کو کوئی یقین دہانی نہیں کرائی۔ ہم فی الحال صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو ہم آگے بڑھیں گے۔
25 جولائی 2018 کے انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن بولے کہ وہ فراڈ الیکشن تھے۔ وہ الیکشن بدترین دھاندلی کا شکار ہوئے تھے۔ ہم نہ تو ان نتائج کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب قوم ان کو مزید مہلت دینے کو تیار نہیں ہے۔ معاشی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے اصرار کیا کہ پاکستان کے گوربا چوف کو اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے خود ہی دستبردار ہو جانا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمٰن بولے کہ "ہمیں کہا گیا کہ کشمیر کی صورتِ حال کے باعث جلسہ نہ کریں لیکن دوسری جانب کرتار پور راہداری کھولنے کے لیے بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ آج کشمیریوں کو موجودہ حکمرانوں نے مودی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ حکومت کی پرواہ کیے بغیر پاکستان کے عوام کشمیریوں کے حقوق کی جنگ لڑیں گے۔"
مولانا فضل الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ "ایک کروڑ نوکریوں کے دعوے کیے گئے لیکن 20 سے 25 لاکھ نوجوان بے روزگار ہو چکے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ باہر سے لوگ نوکریوں کے لیے آئیں گے لیکن دو لوگ باہر سے آئے ایک گورنر اسٹیٹ بینک اور ایک وزیر خزانہ جنہیں آئی ایم ایف کے کہنے پر مقرر کیا گیا۔"
مذہب کارڈ استعمال کرنے کے معاملے پر مولانا فضل الرحمٰن نے مخالفین کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ "پاکستان اور مذہب اسلام کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ آئین مجھے اجازت دیتا ہے کہ مذہب کارڈ استعمال کروں۔ میڈیا مالکان اور اینکرز کھل کر اس آزادی مارچ کا حصہ بنیں اور حکومت کے فیصلوں پر بغاوت کر دیں۔ اگر میڈیا سے پابندی نہ اٹھائی گئی تو پھر ہم بھی کسی پابندی کے پابند نہیں ہوں گے۔"
'اب فوج کو انتخابات میں متنازع نہیں ہونے دیں گے'
اس سے قبل آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ 70 سال سے ہم ملک میں شفاف انتخابات نہیں کرا سکے۔
بلاول بھٹو نے 2008 اور 2013 کے انتخابات کے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت فوج پولنگ اسٹیشن میں تعینات نہیں تھی۔ 2018 میں صرف عمران خان کے لیے فوج کو تعینات کیا گیا۔ ایسے اقدامات سے ادارے متنازع ہوتے ہیں۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بولے کہ فوج صرف عمران خان کی نہیں بلکہ میری اور پورے ملک کی فوج ہے۔ انہوں نے حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ کیا یہ جمہوریت ہے جہاں میڈیا پر قدغنیں ہیں، عوام آزاد نہیں۔ یہاں کلبھوشن یادھو اور ابھی نندن سمیت دہشت گردوں کو ٹی وی پر دکھانے کی اجازت ہے لیکن سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کو دکھانے کی اجازت نہیں ہے۔
کشمیر کی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عمران خان نے کشمیر کاز پر تاریخی حملہ کیا ہے۔
'مقتدر قوتیں دس فی صد حمایت کرتیں تو ملک ترقی کرتا'
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ مقتدر حلقوں نے عمران خان کی بے مثال حمایت کی۔ شہباز شریف نے گلہ کیا کہ عمران خان کے مقابلے میں اگر مقتدر قوتیں 10 فی صد سپورٹ متحدہ اپوزیشن کو کرتیں تو ملک کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچا دیتے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی آئینی حق ہے۔ اگر عمران خان مزید اقتدار میں رہے تو سب پچھتائیں گے۔ شہباز شریف نے خبردار کیا کہ جب تک عمران خان اس ملک کے عوام کی جان نہیں چھوڑتے اس وقت تک ہم عمران خان کی جان نہیں چھوڑیں گے۔
شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمٰن کو کامیاب آزادی مارچ پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے دلیری کا مظاہرہ کیا۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما نیر حسین بخاری کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں مارچ کو کوریج نہیں دی جا رہی۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکمران گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ نیر حسین بخاری کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت سے عوام کو نجات دلا کر ملک میں 1973 کا آئین اصل حالت میں بحال کرائیں گے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام احمد بلور کا کہنا تھا کہ جب تک عمران خان اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہو جاتے اس وقت تک شرکا واپس نہیں جائیں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے دو روز کی مہلت حکومت کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو دی ہے۔ اسد عمر کے بقول مولانا فضل الرحمٰن کا علم ہے کہ انہیں استعفی نہیں ملے گا۔ اسد عمر بولے کہ مولانا اکثر ایسی باتیں کرتے ہیں جنہیں سن کر بھارتی خوش ہوتے ہیں۔
اسد عمر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن 2018 کے انتخابات میں فوج کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور کس طرح اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کر رکھا ہے کہ آزادی مارچ نہ صرف مارچ بلکہ جلسہ بھی ہے اور اس میں دھرنا بھی ہو سکتا ہے۔
'آزادی مارچ' کے قافلے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب جلسے کے لیے مخصوص مقام سیکٹر ایچ نائن پہنچے جب کہ اب بھی جلسہ گاہ میں قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
SEE ALSO: مولانا فضل الرحمٰن کی مفاہمت سے مزاحمت تک کی سیاستمارچ کے شرکا جی ٹی روڈ اور اسلام آباد ایکسپریس وے اور کشمیر ہائی وے سے ہوتے ہوئے جلسہ گاہ تک پہنچے۔ خیبرپختونخوا سے بھی آزادی مارچ کے قافلے اسلام آباد شہر میں داخل ہوئے۔
وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ مارچ کے شرکا کے اسلام آباد آمد کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔
مارچ کے شرکا کے لیے جمعے کی صبح ناشتے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ اسلام آباد پہنچنے پر کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ کا آج جمعے کی نماز کے بعد باضابطہ افتتاح ہو گا۔
جلسے کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم 'انصار الاسلام' نے سیکیورٹی کا حصار قائم کر رکھا ہے۔
حکومت کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے تحت مارچ کے شرکا جلسہ گاہ تک ہی محدود رہنے کے پابند ہیں۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ حکومت کو امید ہے کہ مارچ کے شرکا معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔
آزادی مارچ 27 اکتوبر کو کراچی سے روانہ ہوا تھا جو سکھر، رحیم یارخان، ملتان، ساہیوال اور لاہور سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچا ہے۔
جمعرات کو اپوزیشن جماعتوں کے درمیان جلسے کے انعقاد پر اختلافات بھی سامنے آئے تھے۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے لیاقت پور ٹرین حادثے کے باعث جلسہ ایک دن کے لیے ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر مولانا فضل الرحمٰن کا بیان سامنے آیا تھا کہ جلسہ ملتوی نہیں ہوا۔