بلوچستان میں ریاست کی عملداری کے خلاف برسر پیکار عسکریت پسندوں کی قوت گزرتے وقت کے ساتھ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اب جہاں سیکورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر دیسی ساختہ بموں کے ذریعے جان لیوا حملوں میں بڑی حد تک کمی دیکھی جا رہی ہے، وہاں عسکریت پسندوں کی صفوں سے بھی بڑی تعداد میں نوجوان الگ ہو کر ریاست کی عملداری تسلیم کرنے پر آمادہ ہوتے جا رہے ہیں۔
صوبائی دارلحکومت کو ئٹہ میں جمعے کو بلوچستان اسمبلی کے سبزہ زار پر ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں سینکڑوں عسکریت پسندوں نے ریاست کی عملداری کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری اور دیگر حکام کو ہتھیار جمع کرائے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک بیٹھے بعض بلوچ رہنما پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن، بلوچستان کے عوام نے اُن کے ارادوں کا ادراک کر لیا ہے۔ اس لئے، اب اُن سے نوجوان الگ ہو کر ہمارے ساتھ مل کر پاکستان کی ترقی اور استحکام کےلئے کام کرنے کو تیار ہوگئے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ''بلوچستان کے عوام محب وطن پاکستانی ہیں جو تر قی چاہتے ہیں اور اب وہ کسی کے بہکاوے میں آنے والے نہیں۔ اور نام نہاد آزادی کی تحریک کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں۔ سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے بلوچستان کی تقدیر بدلنے والی ہے''۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ''غربت اور پسماندگی ہمارا مقدر نہیں۔ میں آپ کو اور آپ کے توسط سے بلوچستان کے عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ خوشحالی، آسودگی ایک بہتر مستقبل ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا منتظر ہے۔''
سدرن کمان کے کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ''نام نہاد تحریک سے بلوچ بھائیوں کی علحیدگی ایک حوصلہ افزا، خوش آئند عمل ہے ریاستی ادارے ان نوجوانوں کی ہر ممکن مدد کر ی نگے۔''
اُن کے الفاظ میں ''پاکستان کے تمام ادارے، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں آپ کے ساتھ کھڑی رہیں گی اور انشاءاللہ آپ کو آپ کی عام زندگی بحال کرنے کی بھرپور کوشش کرین گی اس مقصد کےلئے ایک منصوبہ پہلے ہی صوبائی حکومت نے بنایا ہوا ہے اور اس منصوبے کے مطابق آپ لوگوں کو ہر قسم کی اعانت فراہم کی جائے گی انشاءاللہ۔''
بلوچستان کی صوبائی حکومت نے دو سال پہلے پرامن بلوچستان مفاہمتی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ اس پالیسی کے تحت پہاڑوں کا رخ کرنے والے فراریوں کو عام معافی دینے کے علاوہ ساتھ پندرہ لاکھ روپے تک دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کے بعد اب تک تقریباً ڈھائی ہزار نوجوانوں کو اب تک قومی دھارے میں شامل کیا جا چکا ہے''۔
پچاس ارب ڈالر سے زائد رقم سے تعمیر کئے جانے والے پاک چین اقتصادی راہداری کے کا بڑا حصہ قدرتی وسائل سے مالامال اس جنوب مغربی صوبے بلوچستان سے گزر کر اس کے ساحلی شہر گوادر پہنچتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے پر جوں جوں عملدرآمد تیز ہوتا جائےگا صوبے میں لوگوں کو روزگار ملنے کے ساتھ عسکریت پسندی اور تخریب کاری کا بھی خاتمہ ہو جائیگا۔