بلوچستان میں انسانی حقوق کے ’تحفظ کی کوششں کریں گے‘

لاپتا افراد کے اکثر لواحقین اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کا الزام سکیورٹی اداروں پر عائد کرتے ہیں جنہیں حکام مسترد کر چکے ہیں۔

پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ علی نواز چوہان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک اہم مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسی شکایات کا جائزہ لیتے ہوئے سکیورٹی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو بھی طلب کرے۔

جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ ایک عرصے سے مقامی لوگوں کے اضطراب کا باعث رہا ہے۔ ایک عدالتی کمیشن کے ذریعے متعدد لاپتا افراد کو بازیاب بھی کروایا جا چکا ہے لیکن اب بھی بہت سے گمشدہ افراد کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ ان کی اصل تعداد سے متعلق بلوچ غیر سرکاری تنظیموں اور سرکاری اعدادوشمار میں خاصا تضاد پایا جاتا ہے۔

لاپتا افراد کے اکثر لواحقین اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کا الزام سکیورٹی اداروں پر عائد کرتے ہیں جنہیں حکام مسترد کر چکے ہیں۔

علی نواز چوہان نے بتایا کہ نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق ایک پارلیمنٹری کمیشن ہے اس کا بنیادی مقصد انسانی حقوق کا تحفظ اور فروغ ہے کمیشن بلوچستان میں انسانی حقوق پر نہ صر ف خصوصی توجہ دے گا بلکہ اُس کو حل کرنے کی بھی کو شش کرے گا۔

"ہمیں اُن سے گہری ہمدردی ہے لیکن یہ سارا مسئلہ تحقیق کا ہے کیونکہ مختلف سوالات اُبھرتے ہیں کچھ سوالات یہ ہیں کہ جرائم پیشہ عناصر بھی یہاں ہیں جو کہ لوگوں کو تاوان کے لیے اغوا کرتے ہیں اور پھر حکومتی اداروں کو بدنام کر رہے ہیں کچھ شاید حکومتی اداروں میں بھی ایسے عناصر ہوں ، اُن کی نشاندہی ہم کرنا چاہتے ہیں۔"

کمیشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ بیرون ملک اپنے خاندان کو اطلاع دیے بغیر بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ لاپتا ہو گئے ہیں۔ ان کے بقول بازیاب ہونے والے افراد سے بھی تفتیش کی جانی چاہیے تاکہ ان کی گمشدگی میں جو لوگ ملوث ہیں انھیں بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

بلوچستان میں نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کا دفتر کھولنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جسے انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنان خوش آئند قرار دیتے ہیں۔

غیر سرکاری تنظیم "انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان" سے وابستہ امیر جان جمالدینی کہتے ہیں ان کی تنظیم قومی کمیشن کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔

"نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق آف پاکستان ایک مضبوط قدم اٹھا سکتا ہے، یہ اقدام کرنے والا ادارہ ہوگا جو بہت سی چیزوں پر براہ راست ایکشن لے سے اور اُن کا ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بھی قریبی رابطہ ہوگا۔"

صوبائی حکومت کے عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ گزشتہ مختلف اقدامات کی بدولت گزشتہ تین سالوں میں ماضی کی نسبت بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری اور منظم جرائم کی شرح میں کمی آئی ہے۔