اُن کے بقول، ’اگر امن و امان کی خراب صورتِ حال کےباعث ایک منتخب حکومت معطل کی جاسکتی ہے، تو پاکستان کے دیگر تین صوبوں میں بھی سکیورٹی کے حالات انتہائی خراب ہیں‘
بلوچستان کے معطل وزیراعلیٰ، نواب اسلم رئیسانی نے صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امن و امان کی خراب صورتِ حال کےباعث ایک منتخب حکومت معطل کی جاسکتی ہے، تو اُن کے بقول، ’پاکستان کے دیگر تین صوبوں میں بھی سکیورٹی کے حالات انتہائی خراب ہیں‘۔
کیمبرج لندن میں جیو ٹیلی ویژن سے گفتگو میں نواب رئیسانی کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ تین برسوں سے اُن کی حکومت کے خلاف کسی ’غیر آئینی اقدام کے منتظر تھے‘، کیونکہ، اُن کے بقول، بلوچستان کے قدرتی وسائل کے حوالے سے ’دباؤ کا سامنا تھا‘۔
سابق وزیر اعلیٰ کے مطابق، بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات روکنے میں ’ناکامی کی زیادہ ذمہ داری‘ سکیورٹی اداروں پر عائد کی جانی چاہئیے، کیونکہ، اُن کے بقول، ’ امن و امان کو کنٹرول کرنے کے لیے ایف سی اور پولیس کو مکمل اختیارات دیے گئے تھے‘۔
گذشتہ جمعرات کے روز کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکوں میں 100کے قریب ہلاکتوں کے بعد
ہزارہ شیعہ کمیونٹی نے بطور احتجاج وزیر اعلیٰ بلوچستان کی معطلی تک ہلاک شدگان کی تدفین سے انکار کر دیا تھا۔
پیر کی صبح پاکستان کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے مطالبے پر آئین کے آرٹیکل 234کے تحت بلوچستان کی حکومت کو معطل کرنے اور گورنر راج کے نفاذ کا نوٹی فیکیشن جاری کیا تھا۔
بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ امن و امان کی خراب صورتِ حال کی بہتری میں کتنا مثبت کردار ادا کر سکتا ہے، سابق صوبائی وزیر اعلیٰ اور بلوچ پولیٹیکل فورا کے سربراہ حلیم ترین نے ’وائس آف امریکہ ‘سے بات چیت میں کہا کہ گورنر راج جمہوری نہیں ہے، لیکن، اُن کے بقول، میں اِسے عارضی طور پر ایک ناپسندیدہ حل سمجھتا ہوں۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ بلوچستان کے موجودہ حالات کاپائیدار حل نہیں ہے۔
حلیم ترین نے کہا کہ اس مسئلے کا واحد پائیدار حل صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات ہیں، اور ان انتخابات میں ساری قوم پرست قوتوں کو آزادانہ طور پر شامل کیا جائے۔ اُن کے بقول، ’پھر ،بلوچستان کے عوام جن کو بھی منتخب کریں وہی صوبے کے مقدر کا فیصلہ کرسکیں گے‘۔
کیمبرج لندن میں جیو ٹیلی ویژن سے گفتگو میں نواب رئیسانی کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ تین برسوں سے اُن کی حکومت کے خلاف کسی ’غیر آئینی اقدام کے منتظر تھے‘، کیونکہ، اُن کے بقول، بلوچستان کے قدرتی وسائل کے حوالے سے ’دباؤ کا سامنا تھا‘۔
سابق وزیر اعلیٰ کے مطابق، بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات روکنے میں ’ناکامی کی زیادہ ذمہ داری‘ سکیورٹی اداروں پر عائد کی جانی چاہئیے، کیونکہ، اُن کے بقول، ’ امن و امان کو کنٹرول کرنے کے لیے ایف سی اور پولیس کو مکمل اختیارات دیے گئے تھے‘۔
گذشتہ جمعرات کے روز کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکوں میں 100کے قریب ہلاکتوں کے بعد
ہزارہ شیعہ کمیونٹی نے بطور احتجاج وزیر اعلیٰ بلوچستان کی معطلی تک ہلاک شدگان کی تدفین سے انکار کر دیا تھا۔
پیر کی صبح پاکستان کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے مطالبے پر آئین کے آرٹیکل 234کے تحت بلوچستان کی حکومت کو معطل کرنے اور گورنر راج کے نفاذ کا نوٹی فیکیشن جاری کیا تھا۔
بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ امن و امان کی خراب صورتِ حال کی بہتری میں کتنا مثبت کردار ادا کر سکتا ہے، سابق صوبائی وزیر اعلیٰ اور بلوچ پولیٹیکل فورا کے سربراہ حلیم ترین نے ’وائس آف امریکہ ‘سے بات چیت میں کہا کہ گورنر راج جمہوری نہیں ہے، لیکن، اُن کے بقول، میں اِسے عارضی طور پر ایک ناپسندیدہ حل سمجھتا ہوں۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ بلوچستان کے موجودہ حالات کاپائیدار حل نہیں ہے۔
حلیم ترین نے کہا کہ اس مسئلے کا واحد پائیدار حل صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات ہیں، اور ان انتخابات میں ساری قوم پرست قوتوں کو آزادانہ طور پر شامل کیا جائے۔ اُن کے بقول، ’پھر ،بلوچستان کے عوام جن کو بھی منتخب کریں وہی صوبے کے مقدر کا فیصلہ کرسکیں گے‘۔