پاکستان کی وفاقی حکومت نے دارالحکومت اسلام آباد میں پلاسٹک بیگز یعنی پولی تھین کے لفافوں کے استعمال پر پابندی کے قانون پر آج (14 اگست) سے عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ قانون کے مطابق پلاسٹک بیگز کے استعمال، فروخت اور بنانے والوں پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی کے بعد حکومت کی جانب سے متبادل کے طور پر شہریوں کو کپڑے سے تیار کردہ بیگز استعمال کرنے کا کہا گیا ہے اور اس حوالے سے عوام میں آگاہی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔
پلاسٹک بیگز کے متبادل کے طور پر پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی نے چار مختلف اقسام کے بیگز بطور نمونہ تیار کیے ہیں اور شہریوں کو ان ماحول دوست شاپرز کا استعمال تجویز کیا ہے۔ حکام کے مطابق، پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پانچ ہزار سے پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان پلاسٹک مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستانی عوام ہر سال 55 ارب کا پلاسٹک استعمال کرتے ہیں اور حکام کے مطابق پلاسٹک کے استعمال میں ہر سال پندرہ فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں پلاسٹک کو ری سائیکل کرنے کے طریقے محدود ہیں جب کہ کچرے کو ٹھکانے لگانے کے انتظامات بھی ناقص ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کے لفافوں سے ہر سال تقریباً دس لاکھ پرندے مر جاتے ہیں جب کہ ان سے آبی حیات کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔
حکومت کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی کے اس اقدام کو جہاں ماحولیاتی تنظیموں کی جانب سے سراہا جا رہا ہے، وہیں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا حکومت اپنے اس اقدام پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب ہو سکے گی۔
ماہر ماحولیات مریم شبیر کا کہنا ہے کہ پلاسٹک مکمل طور پر تلف نہیں ہوتا۔ پلاسٹک کے استعمال سے انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کے باعث جگر کی خرابی، شوگر اور ہیضہ جیسی بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے 'نان بائیو ڈی گریڈیبل' کے تمام آئٹمز کی بجائے صرف شاپرز پر پابندی لگائی ہے۔ وہ پر امید ہیں کہ آگاہی کے ذریعے عوام کے رویوں میں تبدیلی لا کر اس پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا۔
خیال رہے کہ 2013 میں بھی حکومت کی جانب سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی لگائی گئی تھی۔ تاہم، اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق، ملک میں قومی سطح پر کوئی پالیسی نہ ہونے اور متبادل بیگز کی عدم دستیابی کے باعث ماضی میں پلاسٹگ بیگز کے استعمال پر پابندی کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی امین اسلم کہتے ہیں کہ حکومت نے دنیا کے کامیاب منصوبوں کو دیکھ کر قانون سازی کی ہے اور پلاسٹک بیگز پر پابندی کے اقدام کے پیچھے سیاسی قیادت کا عزم شامل ہے، اس لیے وہ پر امید ہیں کہ یہ کامیاب ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پلاسٹک بیگز فضا اور ہوا کو آلودہ کرتے ہیں اور ہماری صحت کو متاثر کر رہے ہیں۔ ان کے بقول، وفاقی دارالحکومت کے بعد صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا نے بھی پلاسٹک بیگز پر پابندی کے لیے قانون سازی کر لی ہے اور سزائیں بھی مقرر کی ہیں۔
دوسری جانب پلاسٹک لفافوں سے جڑی انڈسٹری نے بھی اس پابندی پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون سے چار لاکھ ملازمین بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوں گے۔
مشیر ماحولیات کہتے ہیں کہ پلاسٹک کے متبادل کے طور پر کپڑے، کاغذ اور ماحول دوست بائیو ڈی گریڈیبل بیگز مارکیٹ میں آنا شروع ہو چکے ہیں اور اس اقدام سے ایک نئی صنعت وجود میں آئے گی۔