گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان کی برآمدات میں تقریباً 12 فی صد کمی واقع ہوئی اور یہ 28 ارب ڈالر بھی نہ ہوسکیں۔ اسی دوران بنگلہ دیش اپنی برآمدات مزید چھ فی صد بڑھا کر 55 ارب ڈالر تک پہنچانے میں کامیاب رہا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگرچہ بنگلہ دیش بھی سخت معاشی حالات کا شکار ہے لیکن وہ دنیا میں کساد بازاری کی لہر کے باوجود اپنی برآمدات بڑھانے میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی برآمدات بنگلہ دیش کے مقابلے میں زیادہ ہونے کے بجائے کم کیوں ہورہی ہیں؟
اگر بنگلہ دیش کی برآمدات کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس سال ڈھاکہ نے 55 ارب 55 کروڑ ڈالر کی اشیاء برآمد کیں جو اس سال طے کیے گئے ہدف سے تو کم ہے لیکن کیونکہ گزشتہ سال جب بنگلہ دیش نے 52 ارب ڈالر سے زائد کی اشیاء برآمد کی تھیں اس کے مقابلے میں اس سال کی برآمدات کی شرح 6.67 فی صد زائد رہی۔
بنگلہ دیش کے سابق ایڈیشنل سیکریٹری اور 'دی فنانشل ایکسپریس' کے کالم نگار ڈاکٹر ہلال الدین احمد کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران بنگلہ دیش کی برآمدات کا حجم 55 ارب ڈالر سے زائد کرنے میں سب سے اہم کردار ریڈی میڈ گارمنٹس کا رہا ہے جس کی برآمدات 46 ارب ڈالر سے زائد رہی اور یوں یہ کُل برآمدات کا 84 فی صد بنتا ہے۔
ڈھاکہ میں مقیم ہلال الدین احمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریڈی میڈ گارمنٹس کی برآمدات میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 10 فی صد سے بھی زائد کا اضافہ ہوا ہے۔
تاہم دوسری جانب بنگلہ دیش کی دیگر بڑی برآمدی اشیاء بشمول چمڑے اور چمڑے کے سامان، گھریلو ٹیکسٹائل، زرعی پراسیس شدہ کھانے کی اشیاء اور انجینئرنگ مصنوعات میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔
پاکستان کی برآمدات
اب پاکستان کا رخ کرتے ہیں جس کی برآمدات 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں 27 ارب 74 کروڑ ڈالر کی رہیں۔ یعنی بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدات سال کے اختتام پر تقریبا نصف رہیں۔ یہی نہیں پچھلے سال سے موازنہ کرنے پر پاکستان کی برآمدات میں چار ارب ڈالر کی کمی دیکھی گئی ہے۔
بنگلہ دیش کی طرح پاکستان کی بھی سب بڑی برآمدات ٹیکسٹائل ہے۔ لیکن یہاں کہانی اُلٹ ہے۔ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل صنعت نے اس سال 10 فی صد زیادہ برآمدات کی ہیں وہیں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد میں ایک سال کے دوران 15 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔
پاکستان سے دنیا بھر میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات کا کُل حجم 16 ارب 51 کروڑ ڈالر رہا جو گزشتہ سال 19 ارب ڈالر سے زائد تھا۔
گزشتہ10 سال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں ایک جمود نظر آتا ہے لیکن مالی سال 22-2021 کے دوران کافی عرصے بعد اس شعبے نے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا جو گزشتہ سال کے اختتام پر اسے برقرار رکھنے میں ناکام رہا ہے۔
بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل کی صنعت کا جائزہ لیا جائے تو اعدا و شمار بتاتے ہیں کہ پچھلے 20 برس میں اس ملک کی ٹیکسٹائل کی صنعت چند ایک سال کو چھوڑ کر مسلسل ترقی اور کُل برآمدات میں اپنے حصے کو بڑھاتی چلی گئی ہے۔
"بنگلہ دیش کی معیشت کی بنیادیں بہتر استوار ہوچکی ہیں"
کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں پروفیسر ڈاکٹر عادل ناخدا کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی معیشت کی بنیادیں پاکستان سے کہیں زیادہ بہتر استوار ہوچکی ہیں۔ ان کےبقول، بنگلہ دیشی ٹیکسٹائل برآمد کنندگان نے بین الاقوامی منڈی میں پاکستان کے مقابلے بہت بہتر روابط استوار کرلیے ہیں۔ اس لیے وہ پاکستان سے بہتر طور پر اس کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بنگلہ دیش نے حالیہ مہینوں میں اپنے معاشی بحران کی وجہ سے درآمدات کو محدود کر دیا تھا اور اپنی کرنسی کی قدر میں بھی کمی کی تھی لیکن اس کی برآمدات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
ایک اور معاشی ماہر ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا ہے کہ پاکستان کی برآمدات گزشتہ سال کم رہنے کی ایک بنیادی وجہ درآمدات پر پابندی تھی اور اس سال جہاں پاکستان کی برآمدات (12 فی صد) کم رہی ہیں تو وہیں درآمدات میں بھی بڑی کمی (30 فی صد) دیکھی گئی ہے۔
ڈاکٹر اقدس کے مطابق برآمدات میں کمی کی وجہ پاکستان کو درپیش ادائیگیوں کے توازن کے مسائل تھے جس کے باعث حکومت نے درآمدات پر پابندی عائد کررکھی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نےبتایا کہ برآمدی مال تیار کرنے کے لیے پاکستانی صنعتوں میں بہت سی درآمدی اشیاء کی ضرورت پڑتی ہے جیسے ٹیکسٹائل سیکٹر کی بات کی جائے تو اس میں ڈائز، کیمیکلز اور مشینری وغیرہ باہر سے درآمد کی جاتی ہیں۔ جب یہ اشیاء باہر سے منگوانا مشکل ہوگئیں تو اس کا اثر ضروری طور پر برآمدات میں کمی کی صورت میں ہی نکلنا تھا۔
بنگلہ دیش کی معیشت کی اصل طاقت کیا ہے؟
بنگلہ دیش کے سابق ایڈیشنل سیکریٹری ڈاکٹر ہلال الدین احمد کا خیال ہے کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ریڈی میڈ گارمنٹس کے علاوہ، بنگلہ دیش کی اہم طاقت اس کا زراعت کا شعبہ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں فصل، ماہی گیری اور لائیو اسٹاک کے ذیلی شعبوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ بہترین افرادی قوت بھی بنگلہ دیش کی معیشت کے لیے اہم اثاثہ ثابت ہورہی ہے۔
ان کے خیال میں بنگلہ دیش میں پسماندہ، غیر منظم اور ناکافی فزیکل انفرااسٹرکچر ملک کی معیشت کی اہم کمزوری بنا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل کی کمی، غیر رسمی معیشت کا بڑا سائز، بڑی عدم مساوات اور آمدنی میں تفاوت اور بینکنگ سیکٹر سمیت دیگر شعبوں میں بے تحاشا کرپشن جیسی مشکلات بھی معیشت کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھانے میں رکاوٹ ہیں۔
دوسری جانب ڈاکٹر اقدس کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی معیشت کی سب سے بڑی طاقت ہی اس کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ہے۔ اور وہ چین کے بعد سب سے بڑا ٹیکسٹائل کا برآمدکنندہ بن چکا ہے۔
ان کے خیال میں ٹیکسٹائل سیکٹر میں بنگلہ دیش کے پاس خواتین کی صورت میں بہت بڑی افرادی قوت موجود ہے اور گزشتہ 15 سے 20 برس میں ٹیکسٹائل شعبے میں یہ بڑی تبدیلی دیکھی گئی ہے لیکن دوسری جانب پاکستان میں یہ شعبہ اپنی مارکیٹس کھوتا جارہا ہے۔
ڈاکٹر اقدس کا خیال ہے کہ پاکستان کا ٹیکسٹائل شعبہ اس لیے پیچھے رہتا جارہا ہے کیوں کہ فیکٹریوں اور صنعتوں کو چلانے کے لیے توانائی کی کمی کا سامنا ہے۔ اگر توانائی کی صورتِ حال بہتر بھی ہو تو وہ انتہائی مہنگی ہے جس سے پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں امن و امان کی صورتِ حال اور عدم استحکام میں صنعتوں کو جم کر کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اور انہی وجوہات کی بناء پر پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات بنگلہ دیش کی برآمدات سے کافی پیچھے رہ گئی ہیں۔