پاکستان میں کمرشل بینکوں نے صارفین کو مطلع کیا ہے کہ بین الاقوامی ادائیگیاں اب بینک ریٹ کے بجائے اوپن مارکیٹ ریٹ پر کی جائیں گی۔
بینکنگ انڈسٹری کے مطابق بینکوں کی انٹربینک ریٹ کے بجائے اوپن مارکیٹ ریٹ سے ادائیگی صارفین کے لیے فی ڈالر25 سے 30 روپے تک مہنگی پڑے گی۔
صارفین نے اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا ہے کہ بینکوں کو انٹر بینک ریٹ سے سیٹلمنٹ کرنے کا پابند کیا جائے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس عمل کے ذریعے ڈالر کے آؤٹ فلو کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن اس سے صرف وہ افراد جو چھوٹی سطح پر کاروبار کررہے ہیں اور کارڈز کے ذریعے ادائیگی کرکے سامان منگوا رہے ہیں وہ متاثر ہوں گے۔
ماہرین کے مطابق ایسے افراد جو کارڈز کے ذریعے بیرون ملک شاپنگ یا ادائیگی کرتے ہیں، انہیں بھی زیادہ فرق نہیں پڑے گا البتہ بیرونِ ملک بچوں کی فیسیں بھجوانے والے یا چھوٹی ادائیگیاں کرنے والے افراد متاثر ہوں گے۔
پاکستان کے مختلف بینکوں کی طرف سے صارفین کو ایک پیغام بھجوایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بینک تمام بین الاقوامی لین دین صرف اوپن مارکیٹ ریٹ پر ہی کریں گے۔
اس لیے بین الاقوامی تاجروں اور ڈیبٹ کارڈز کے لیے ویب سائٹس کے ذریعے بین الاقوامی لین دین کی پاکستانی روپوں کی تبدیلی اب سے موجودہ اوپن مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہو گی۔
اس پیغام کے بعد چھوٹے اور متوسط کاروباری طبقے اور بیرون ملک سفیر کے دوران اپنے کارڈز استعمال کرنے والے افراد میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کیوں کہ اس وقت اوپن مارکیٹ میں مختلف ریٹس پر ڈالر فراہم کیے جارہے ہیں۔ جن میں بینک ریٹ 227 روپے فی ڈالر ہونے کے باوجود اوپن مارکیٹ میں 255 روپے تک کا مل رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان میں اس وقت ڈالر کی کمی کی وجہ سے ہنڈی اور حوالہ کا کاروبار تیزی سے بڑھتا جارہا ہے کیوں کہ بینک ریٹس اور اوپن مارکیٹ کے علاوہ بلیک مارکیٹ میں فرق زیادہ ہونے کی وجہ سے بیشتر افراد بینک کے بجائے اوپن مارکیٹ میں ڈالر فروخت کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
راولپنڈی میں موبائل فون کا کاروبار کرنے والے فرقان احمد کہتے ہیں کہ اس فیصلے کے بعد سے مارکیٹ میں موبائل فونز اور ان کی اسیسریز کی قیمت میں کم سے کم 20 سے 25 فی صد تک اضافے کا امکان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم بیرون ملک خاص طور پر چین سے سامان منگواتے ہیں اور اس کے لیے اکثر 'علی بابا' جیسی ویب سائٹس بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ پہلے ان کی ادائیگی بینک ریٹ سے کچھ زیادہ قیمت پر ہوجاتی تھی لیکن اب اگر اوپن مارکیٹ کا ریٹ لگایا جائے گا تو فی ڈالر امکان ہے کہ 30 روپے سے زائد کا فرق پڑے گا اور یہ تمام کا تمام فرق خریدار پر منتقل کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سے دکان دار دبئی یا چین سے اپنے کارڈز کے ذریعے بھی ادائیگیاں کرتے تھے ، لیکن اب بینکوں کی جانب سے اوپن مارکیٹ ریٹ پر ڈالر کی قیمت طے ہونے سے اس میں بہت زیادہ فرق آئے گا۔
اس صورتِ حال میں بیرونِ ملک سفر کرنے والے افراد بھی متاثر ہوں گے جن کے کارڈز پر اوپن مارکیٹ کے مطابق ڈالر چارج کیا جائے گا اور ٹیکسز ڈالنے کے بعد فی ڈالر 260 روپے تک کا ریٹ ہوسکتا ہے جس سے لوگوں کو بین الاقوامی ادائیگیوں میں کہیں زیادہ رقم ادا کرنا پڑے گی۔
معاشی تجزیہ کار اور کرنسی مارکیٹ پر نظر رکھنے والے عبداللہ عمر کہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں کو پابند کیا ہے کہ امپورٹ اور ایکسپورٹ کے لیے کی جانے والی ادائیگیوں میں ایکسچینج ریٹ یکساں ہونا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عبداللہ عمر کا کہنا تھا کہ اگر کسی بینک کے ذریعے 10 ارب ڈالرز کی درآمدات اور اتنی ہی برآمدات ہو رہی ہیں تو وہ تو ڈالرز کی کمی پوری کر سکتے ہیں۔ لیکن کئی بینک ایسے ہیں جن کے پاس برآمدات اور زرِمبادلہ کی مد میں کم ڈالرز آ رہے ہیں اور طلب اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اس لیے ایسا کیا جا رہا ہے کہ وہ بینک کے بجائے اوپن مارکیٹ سے ڈالر اٹھا رہے ہیں اور ڈالر کی اوپن مارکیٹ میں قیمت کم زیادہ ہونے کے درجنوں فیکٹرز ہیں۔
اُن کے بقول اوپن مارکیٹ میں کہیں 250 اور کہیں 260 کا ڈالر مل رہا ہے۔ بینکوں کے پاس ان فلوز نہیں ہیں اور آؤٹ فلوز بہت زیادہ ہیں۔ حکومت ریٹ کو ایڈجسٹ نہیں ہونے دے رہی۔ ایسی صورتِ حال میں حکام بین الاقوامی سطح پر ان ادائیگیوں کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں اور ایسے میں اوپن مارکیٹ ریٹ میں عام صارفین کو ڈالر دیے جارہے ہیں۔
عبداللہ عمر نے کہا کہ کاروباری حضرات کے لیے ایل سیز نہیں کھل رہیں، خاص طور پر چھوٹے امپورٹرز جنہوں نے 15 سے 20 ہزار ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔
اُن کے بقول ایک تو بینک ان کی ایل سیز نہیں کھول رہے اور دوسر ےا نہیں یہ خدشہ ہے کہ اگر بینک اس پر اتفاق کرتے ہیں تو پھر انہیں مارکیٹ میں ڈالر کے عوض پاکستانی روپے جمع کرانا ہوں گے جس سے لامحالہ ملک میں مہنگائی بڑھے گی۔