یقین ہے کہ روس نے یوکرین پر حملے کا فیصلہ کر لیا ہے: صدر بائیڈن

امریکہ کے صدر جو بائیڈن جمعے کو وائٹ ہاؤس میں اظہار خیال کر رہے ہیں۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اُنہیں یقین ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن یوکرین پر حملے کے لیے اپنا ذہن بنا چکے ہیں۔

جمعے کو وائٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔

اس سے قبل روسی فوج نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہفتے کو اسٹرٹیجک نیوکلیئر فورسز کی جنگی مشقوں کا آغاز کر رہی ہے جن کی نگرانی صدر پوٹن خود کریں گے۔

البتہ صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ اُنہیں نہیں لگتا کہ صدر پوٹن جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر غور کر رہے ہیں۔

بائیڈن نے یوکرین کے علاقے ڈونباس میں روس نواز جنگجوؤں کی شیلنگ کا بھی تذکرہ کیا جس کے حوالے سے ماسکو نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حملہ یوکرین نے کیا۔ بائیڈن نے کہا کہ یہ روس کی وہی ڈس انفارمیشن مہم ہے جس کے تحت ڈونباس میں نسل کشی اور یوکرین کی جانب سے روس پر حملے کے دعوے کر کے عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔

بائیڈن نے کہا کہ یہ سب الزامات اور دعوے روس کے ان جھوٹے حیلے بہانوں کا تسلسل ہیں جس کے تحت وہ یوکرین پر حملے کا عذر تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ اُن کی انتظامیہ پہلے ہی خبردار کر چکی تھی کہ روس یوکرین پر حملے کا جواز تلاش کرنے کے لیے 'فالس فلیگ آپریشن" کر سکتا ہے۔

خیال رہے کہ 'فالس فلیگ آپریشن" کی اصطلاح16 ویں صدی میں استعمال کی گئی جس کے تحت کوئی ملک ایسا فوجی یا سیاسی اقدام کرتا ہے جس کا الزام بعد میں دُشمن پر عائد کر کے جنگ شروع کرنے کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔

البتہ صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ کشیدگی کے اس ماحول میں بھی سفارت کاری کے ذریعے مسائل حل کرنے کا راستہ کھلا ہے۔

بائیڈن کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق اُنہیں اب بھی لگتا ہے کہ صدر پوٹن سفارتی آپشن کے ذریعے تنازع کو حل کرنے پر غور کریں گے۔

دریں اثنا سفارتی کاری کے ذریعے روس، یوکرین تنازع کو حل کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن 24 فروری کو اپنے روسی ہم منصب سرگئی لارووف سے ملاقات کریں گے۔

ادھر امریکہ اور خطے میں اس کے اتحادی ممالک اس دستاویز کا بھی جائزہ لے رہے ہیں جو روس کی جانب سے ماسکو میں امریکی سفیر جان سلیوان کے حوالے کی گئی ہیں۔

یہ دستاویز روس کو امریکہ اور نیٹو ممالک کی مذاکرات کی دعوت سے متعلق جواب میں دی گئی ہےجن میں امریکہ اور نیٹو ممالک نے یورپ میں میزائل تنصیبات اور جنگی مشقوں پر بات چیت پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ البتہ امریکہ اور نیٹو ممالک نے یوکرین کو نیٹو میں شامل نہ کرنے کے روسی مطالبے کو رد کر دیا تھا۔

SEE ALSO:

روس، یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کو 'سرخ لکیر' کیوں سمجھتا ہے؟

روسی سائبر حملے

وائٹ ہاؤس میں بریفنگ کے دوران ڈپٹی نیشنل سیکیورٹی ایڈوئزار برائے سائبر سیکیورٹی این نیوبرگر نے بتایا کہ امریکہ کو یقین ہے کہ یوکرین کے بینکوں پر حالیہ سائبر حملوں میں روس ملوث ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ "ہمارے پاس تیکنیکی معلومات ہیں کہ روس کے مرکزی انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے یوکرین سے تعلق رکھنے والے آئی پی اڈریسز اور ڈومینز پر سائبر حملے کیے گئے۔

البتہ نیوبرگر نے واضح کیا کہ فی الحال امریکہ کی داخلی سالمیت کو ان سائبر حملوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ روس پر پابندیوں کی صورت میں ماسکو امریکی اہداف پر سائبر حملے کر سکتا ہے۔

کشیدگی کم کرنے پر زور

امریکی محکمہؐ دفاع پینٹاگان کے مطابق امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعے کو اپنے روسی ہم منصب سے ہونے والے ٹیلی فونک رابطے میں کشیدگی کم کرنے پر زور دیا۔

ترجمان جان کربی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق وزیرِ دفاع نے روسی ہم منصب پر زور دیا کہ خطے میں کشیدگی ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یوکرین کا گھیراؤ کرنے والی روسی افواج واپس لوٹ جائیں اور تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔