امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے ایک حالیہ بیان نے افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی اور دوحہ معاہدے کے بارے میں نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔
بائیڈن نے جمعے کو کہا تھا کہ طالبان القاعدہ کو افغانستان سے باہر نکالنے میں امریکہ کی مدد کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا "میں نے افغانستان کے بارے میں کیا کہا تھا کہ القاعدہ وہاں نہیں ہو گی۔ میں نے کہا تھا کہ ہمیں طالبان سے مدد ملے گی۔"
انہوں نے سوال کیا،"اب کیا ہو رہا ہے؟ اپنےپریس میں پڑھیں۔ میں درست تھا۔"
صدر نے یہ تبصرہ محکمۂ خارجہ کی اس حالیہ رپورٹ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کیا جس میں اگست 2021 میں افراتفری کے شکار امریکی فوجی انخلاء میں اہم کردار ادا کرنے والوں کے طور پر ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ کی خامیوں کو اجاگر کیا گیاہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ کی پیٹسی وڈاکوسوارا کی رپورٹ کے مطابق بائیڈن کے ریمارکس نے فوری طور پرایک تنازع کو جنم دیا ہے۔ افغان انٹیلی جینس کے ایک سابق سربراہ نے صدر بائیڈن کا حوالہ دیتے ہوئے اس وقت کی ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے درمیان 2020 کے امن معاہدے پر دیرینہ تنقید کا اعادہ کیا جس کے نتیجے میں بیس سال سے جاری جنگ ختم ہوئی تھی۔
رحمت اللہ نبیل 2010 سے 2012 تک افغانستان کی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس)کے سربراہ تھے۔ ہفتے کے روز ایک ٹوئٹ میں انہوں نے بائیڈن کے ریمارکس کا مذاق اڑاتے ہوئے طالبان کو امریکہ کا ایک ایسا نیم فوجی اتحادی قرار دیا جو روس کے کرائے کے فوجیوں 'واگنر' سے مشابہ ہے۔
رحمت اللہ نبیل نے کہا کہ بائیڈن نے "دوحہ معاہدے کے چھپے ہوئے ساجھے داروں کو بے نقاب کرکے ایک اہم انکشاف کیا ہے جس سے اس خطے میں امریکہ کے واگنر گروپ کی حیثیت سے طالبان کی اصل نوعیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔"
دوحہ معاہدے کے تحت، واشنگٹن کی جانب سے افغانستان سے اپنے فوجیوں کے انخلاء کے بدلے میں طالبان نےاپنے ملک کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ بننے سے روکنے اور امریکی فوجیوں پر حملے بند کرنے پر اتفاق کیاتھا۔
بائیڈن کا یہ دعویٰ کہ القاعدہ نے افغانستان سے پسپائی اختیار کر لی ہے، فروری میں جاری ہونے والی اقوامِ متحدہ کی اس رپورٹ سے بھی متصادم ہے جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ القاعدہ سمیت دہشت گرد گروپ "افغانستان میں نقل و حرکت کی آزادی سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔"
امریکہ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ
صدر بائیڈن کے تبصرے کی وضاحت کرنے کے لیے پوچھے جانے والے ایک سوال پر وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرین یاں پیئر نے کہا کہ صدر بائیڈن کو امریکہ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیےایک دشوار فیصلہ کرنا تھا اور وہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتے تھے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف چوکس رہیں۔
انہو ں نے جمعے کو پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا "ہم نے القاعدہ کے ایک رہنما کو وہاں زمین پرکسی بھی فوجی کی موجودگی کے بغیر ختم کیا-"
کیرین القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی امریکی ڈرون میزائلوں کے ذریعے کابل میں ہلاکت کا حوالہ دے رہی تھیں، جہاں انتظامیہ کے مطابق وہ طالبان کے مہمان کے طور پر مقیم تھے۔
اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں، جو رکن ریاستوں کی انٹیلی جینس پر مبنی ہے، یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سیف العدیل اب القاعدہ کا اصل رہنما ہے ۔
القاعدہ خود 31 جولائی کے حملے کے بعد سے جس میں الظواہری کی ہلاکت ہوئی تھی، اپنی قیادت کی حیثیت کے بارے میں خاموش ہے ۔ رپورٹ میں خاموشی کی دو وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کی افغان طالبان کے بارے میں حساسیت کی وجہ سے العدیل کی قیادت کا اعلان نہیں کیا جا سکتا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس گروپ کی قیادت کا محل وقوع ایسے سوالات کو جنم دیتا ہے جس کے چیلنجز القاعدہ کے عزائم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان چیلنجز میں اس کا حریف دہشت گرد گروپ داعش بھی شامل ہے۔
امریکی اہل کار کیا کہتے ہیں؟
انٹیلی جینس معاملات پر بات کرنے کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک امریکی اہلکار نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن طالبان کی "مدد" کا حوالہ دیتے ہوئے اپریل میں کی جانے والی اس کارروائی کا حوالہ دے رہے تھے جس میں داعش کے ایک رہنما کو ہلاک کیا گیا تھا۔
نیشنل سیکیورٹی کونسل نے دعویٰ کیا ہے کہ داعش کے رہنما نے 2021 میں کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ’ایبی گیٹ‘ پر ہونے والےاس ہلاکت خیزخودکش بم حملے کی منصوبہ بندی کی تھی جس میں 13 امریکی فوجی اور کم از کم 160 افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔
افغانستان میں القاعدہ کے بارے میں بائیڈن کے جائزے نے افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی اور ان سے خطے کے لیے لاحق خطرات پر واشنگٹن اور اقوامِ متحدہ کے درمیان موجود تفریق کو اجاگر کیاہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سال کے شروع میں جاری ہونے والی اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ مستقبل قریب میں جنگجو گروپ کے افغانستان میں موجود رہنے کی توقع ہےاوراس کے نتیجے میں افغانستان "وسطی اور جنوبی ایشیا کے لیے دہشت گردی کے خطرے کا بنیادی ذریعہ" بنا رہے گا۔
اقوامِ متحدہ کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی انٹیلی جینس پر مبنی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ "القاعدہ اور طالبان کے درمیان قریبی تعلقات بدستوربرقرار ہیں۔"
امریکی انتظامیہ نے اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے اجراء کے بعد اسے مسترد کر دیا تھا اور اس بات پر زور دیا تھا کہ افغانستان میں القاعدہ ’ہوم لینڈ‘(امریکہ)کےلیے خطرہ نہیں ہے کیوں کہ واشنگٹن انخلاء کے بعد سے اپنی“over-the-horizon” صلاحیت پر انحصار کرتا ہے۔
یہ اصطلاح ڈرون حملوں اور اسپیشل آپریشنز فورسز کی طرف سے کی جانے والی دیگر کارروائیوں کے لیےاستعمال کی جاتی ہے۔
امریکی اہلکار نے کہا کہ انتظامیہ کا اندازہ ہے کہ دہشت گرد گروپ "افغانستان سے امریکہ یا اس کے بیرون ملک مفادات کے خلاف حملے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا ہے۔"
اہلکار نے کہا کہ ہمارے پاس ایساکوئی اشارہ نہیں ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کےارکان بیرونی حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ہیں۔تاہم انہوں نے کہا "یقینا، ہم قریب سے نگرانی جاری رکھیں گے۔"
طالبان کا ردعمل
طالبان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، عبدالقہار بلخی نے بائیڈن کے اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئےکہا کہ یہ "حقیقت کا اعتراف" ہے کہ گروپ کی حکمرانی میں افغانستان میں کوئی بھی دہشت گرد تنظیم کام نہیں کررہی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سےاقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی حالیہ رپورٹ کی تردید ہوتی ہے جس میں افغانستان میں بیس سے زائد مسلح گروہوں کی موجودگی اور آپریشنز کا الزام لگایا گیا ہے۔
ری پبلکنز کیا کہتے ہیں؟
سابق امریکی نائب صدر مائیک پینس سمیت ری پبلکنز نے محکمۂ خارجہ کی رپورٹ کے بعد بائیڈن پر تنقید کی بھرمار کر دی ہے۔
اتوار کو سی بی ایس ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران پینس نے کہا افغانستان سے 'تباہ کن انخلا' ٹرمپ حکومت کے تحت کبھی نہیں ہوا۔ یہاں جو کچھ ہوا اس کا الزام موجودہ کمانڈر انچیف پر عائد ہوتا ہے۔
تاہم اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں بائیڈن اور ان کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ دونوں پر الزام عائد کیا گیاہے کہ کس طرح دونوں انتظامیہ میں عہدیداروں کی ناقص منصوبہ بندی نے افراتفری اورہلاکت خیز انخلاء میں اہم کردار ادا کیا۔
رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ افغانستان میں امریکی فوجی مشن کو ختم کرنے کے بارے میں بائیڈن اور ٹرمپ دونوں کے فیصلوں کے "افغان حکومت کی عمل داری اور اس کی سلامتی کے لیے سنگین نتائج نکلے۔"