پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے وزیرِ اعظم آفس کی آڈیو لیکس معاملے کو انتہائی حساس قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم چاہے کوئی بھی ہو اس آڈیو لیکس سے قومی سلامتی کا سوال پیدا ہواہے۔ اُن کے بقول دنیا بھر میں اس طرح کی ریکارڈنگز عموماً انٹیلی جنس ایجنسیاں کرتی ہیں، لہذٰا ہمیں اس کا جواب چاہیے۔
امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے وائس آف امریکہ کی ارم عباسی کو دیے گئے انٹرویو میں آڈیو لیکس معاملے، امریکہ، پاکستان تعلقات سمیت دیگر اُمور پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے آڈیو لیکس معاملے کی انکوائری کا حکم دیا ہے جس کے نتائج کا ہم سب کو انتظار رہے گا۔ ہم اس عمل کی مذمت کرتے ہیں۔
اُن کے بقول جب وزیرِ اعظم کے دفتر کا معاملہ ہو تو وزیرِ اعظم چاہے عمران خان ہوں یا شہباز شریف، اس سے قومی سلامتی کا سوال پیدا ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ چند روز قبل پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور اُن کے پرنسپل سیکریٹری کی ایک آڈیو منظرِ عام پر آئی تھی جس میں وہ مریم نواز کے داماد کی فیکٹری کے لیے مشینری منگوانے اور گرڈ اسٹیشن کی تنصیب پر بات کر رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم نے اس آڈیو کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں ایسا کچھ نہیں تھا جس پر مخالفین اعتراض اُٹھا رہے ہیں، تاہم اس معاملے کی انکوائری کی جائے گی۔
'ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہمارے حکومت میں آنے سے پہلے سے جاری ہیں'
خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ جاری مذاکرات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات گزشتہ دورِ حکومت میں شروع ہوئے تھے اور بات سیز فائر تک پہنچ گئی تھی۔
اُن کے بقول "ہمارا شروع سے ہی یہ مؤقف رہا ہے کہ پارلیمان کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے جس کے بعد پارلیمان کو اس پر بریفنگ دی گئی۔ لہذٰا اب بھی ہمارا یہ اصرار ہے کہ یہ مذاکراتی عمل پارلیمان کی زیر نگرانی ہی ہونا چاہیے۔ـ لیکن ابھی تک یہ کمیٹی نہیں بنی ۔ مجھے توقع ہے کہ اس کے نتیجے میں امن قائم ہو گا، لیکن ماضی میں ایسے مذاکرات کا نتیجہ مثبت نہیں رہا۔ـ
بلاول بھٹو نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں افغانستان میں طالبان حکومت کو الگ تھلگ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ "میں افغان طالبان سے رابطہ کاری کے حق میں ہوں۔ ہم نے نوے کی دہائی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ اس وقت انہیں تنہا چھوڑنے سے مسائل پیدا ہوئے اور انتہا پسندی بڑھی۔ـ
پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا اگر ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں خواتین اور دیگر گروپس کو حقوق ملیں تو ہمیں طالبان کے ساتھ رابطے میں رہنا ہو گا۔ ان کے منجمد فنڈز جاری کرنا ہوں گے کیوں کہ وہ افغان عوام کے فنڈز ہیں۔
اُن کے بقول "ہمیں یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ غربت, دہشت گردی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ہمیں افغان معیشت کی بحالی اور افغان عوام کو حقوق دلانے کے لیے انہیں مالی وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔'
SEE ALSO: افغانستان کے حکمرانوں کو دوبارہ تنہا کرنے کے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں، بلاول بھٹو زردارییاد رہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے تقریبا ساڑھے نو ارب ڈالر کے افغان اثاثے منجمد کر ديے تھے۔ بیرون ملک سے افغانستان فنڈز منتقل کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی جس سے حکام کے مطابق ملک کے مالیاتی نظام کو شدید دھچکہ لگا اور پہلے سے کمزور معیشت مزید زبوں حالی کا شکار ہو گئی تھی۔
’سیلاب پر عالمی ردِعمل سے مطمئن ہیں‘
پاکستان میں حالیہ سیلاب اور بیرونی امداد سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہمیں اس سلسلے میں امریکہ اور بین الاقوامی کمیونٹی سے جو ردعمل ملا ہے ، میں اس پر بہت مطمئن ہوں۔
چین کے قرضوں میں ریلیف کے سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ بلنکن کی تجویز پر بلاول کا کہنا تھا کہ ابھی ہم سیلاب سے نمٹنے کے ابتدائی حالات سے گزر رہے ہیں۔ اگر قرضوں میں ریلیف کی ضرورت پڑی تو ہم اس سلسلے میں سب سے بات کریں گے۔
’’لیکن اگر میں چین سے بات کروں گا، تو یہ میری اور چین کے درمیان بات چیت ہوگی، کسی اور کے اس بات چیت میں داخل ہونے کی کوئی ضرورت، میرے خیال میں نہیں ہے۔‘‘
خیال رہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے بلاول بھٹو زرداری سے حالیہ ملاقات میں تجویز دی تھی کہ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث پاکستان چین سے قرضوں میں ریلیف حاصل کرے۔
’فی الحال بھارت کی جانب ہاتھ بڑھانا ممکن نہیں ہے‘
پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری لانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی سطح پر اس سلسلے میں کافی کوششیں کر چکا ہے۔ 2010 میں پاکستان نے یک طرفہ طور پر تجارت شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن 2019 کے بعد سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے عوام مخالف اقدامات کی وجہ سے حالات بہت بدل چکے ہیں۔
SEE ALSO: اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان سفارت کاری واپس آچکی ، بلاولاُن کے بقول بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات نے بھی اس صورتِ حال کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے فی الحال پاکستان کی جانب سے ہاتھ آگے بڑھانا ممکن نہیں ہے۔
’عمران حکومت گرانے میں، امریکہ یا فوج کا کوئی ہاتھ نہیں تھا‘
بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کے اس الزام کو مسترد کر دیا کہ ان کی حکومت گرانے میں امریکی سازش اور پاکستانی فوج کا ہاتھ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم عمران خان کی پالیسیوں کی وجہ سے انہیں ہٹانے کے لیے تین سال سے سیاسی جدو جہد کر رہے تھے۔
اُن کے بقول "ہم نے ان کے خلاف اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جس میں ان کی مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے بھی ہمارا ساتھ دیا۔ یہ ایک جمہوری طریقۂ کار ہے۔ اس میں سازش کہاں سے آگئی? فوج کے کردار کا ذکرکرتے ہوئے بلاول کا کہنا تھا کہ عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ فوج غیر آئینی کردار ادا کرے اور انہیں ہمیشہ وزیر اعظم کی مسند پر بٹھائے رکھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے اس تاثر کی نفی کی کہ بھٹو فیملی اور ان کی پارٹی کی جدو جہد فوج کے خلاف رہی ہے اور اب وہ فوج کی 'بی ٹیم' بن کر حکومت میں آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی جماعت کبھی بھی فوج مخالف نہیں تھی۔ لیکن ان کی جدو جہد مسلسل جمہوریت کے لیے تھی اور ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فوج نےسپورٹ نہیں کیا بلکہ ہم پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد حکومت میں آئے ہیں۔