بسمہ معروف بطور کپتان مستعفی؛ ' ٹیم کو اب نئی قیادت کی ضرورت ہے'

پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں خراب پرفارمنس کے بعد کپتان بسمہ معروف نے قیادت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ بسمعہ معروف کی قیادت میں گرین شرٹس میگا ایونٹ کے دوسرے راؤنڈ میں بھی جگہ نہیں بناسکی تھیں۔

سابق کپتان نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں لکھا کہ انہیں ٹیم کی قیادت کرنے پر فخر ہے۔وہ سمجھتی ہیں کہ اس وقت ٹیم کو نوجوان کپتان کی ضرورت ہے اس لیے انہوں نے قیادت سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن بطور کھلاڑی وہ ہر وقت نئے کپتان کی رہنمائی کے لیے موجود ہوں گی۔


پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی نے بسمہ معروف کا استعفی منظور کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ان کی خدما ت کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوان کھلاڑی کو قیادت کا موقع دینے کے لیے ان کے اس قدم کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

نجم سیٹھی پرامید ہیں کہ بسمہ مستقبل میں پاکستان کے لیے کھیلتی رہیں گی اور ملک کا نام روشن کریں گی۔

جنوبی افریقہ میں کھیلے جانے والے ویمنز ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم نے مجموعی طور پر چار میچ کھیلے جس میں تین میچز میں بسمہ نے قومی ٹیم کی قیادت کی اورسوائے آئرلینڈ کے ہر ٹیم سے اسے شکست ہوئی۔

بطور بلے باز بسمہ کی کارکردگی ایونٹ میں بہتر رہی۔ انہوں نے تین میچوں میں 49 کی اوسط سے 98 رنز بنائے جس میں بھارت کے خلاف ان کی 68 رنز کی ناقابل شکست اننگز بھی شامل تھی۔انگلینڈ کے خلاف میچ میں وہ زخمی ہونے کی وجہ سے شرکت نہ کرسکیں اور ان کی جگہ ندا ڈار نے قیادت کی۔

میگا ایونٹ سے قبل بسمہ معروف کی قیادت میں پاکستان ویمنز ٹیم کو آسٹریلیا کے ہاتھوں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سیریز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

'بسمہ معروف نے عالمی سطح پر بطور کھلاڑی اور کپتان، پاکستان کا نام روشن کیا'

بسمہ معروف کا شمار پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی صف اول کے کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ ان کی قیادت میں قومی ٹیم نے 62 میں سے 27 ٹی ٹوئنٹی میچز اور 34 میں سے 16 ون ڈے میچز میں فتح حاصل کی۔

سن 2006 میں پاکستان کی جانب سے اپنا پہلا میچ کھیلنے والی کھلاڑی اب تک 124 ون ڈےانٹرنیشنل میچز میں پاکستان کے لیے 3110 رنز بنا چکی ہیں جب کہ 132 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں ان کے مجموعی رنز کی تعداد 2658 ہے۔


گزشتہ سال ورلڈ کپ میں بھارت کو شکست دینے والی پاکستان ویمنز ٹیم کی قیادت بھی بسمہ ہی نے کی تھی۔

جون 2022 میں وہ پاکستا ن کی جانب سے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں سب سے زیادہ رنز بنانے والی کھلاڑی بنی تھیں اور اس وقت پاکستان کی واحدبلے باز ہیں جنہوں نے ون ڈے انٹرنیشنل میں تین ہزار اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں ڈھائی ہزار رنز کا سنگ میل عبور کیا ہے۔

بسمہ معروف کی قیادت سے دست برداری پر سابق ساتھیوں کا ملا جلا ردِعمل

پاکستان کی ویمنز کرکٹ ٹیم کی 21 ون ڈے اور 51 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں نمائندگی کرنے والی ارم جاوید کا بھی کہنا تھا کہ بسمہ معروف کے فیصلے سے پاکستان کرکٹ میں ایک اہم باب بند ہوگیا۔ لیکن ٹیم میں بطور کھلاڑی ان کی موجودگی سے نوجوان کھلاڑیوں کو مدد ملے گی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بسمہ معروف ایک اچھی کپتان توتھیں ہی، وہ ایک بہت اچھی کھلاڑی ہیں جن کے فیصلے کا سب کو احترام کرنا چاہیے۔

ارم جاوید نے یہ بھی کہا کہ بطور کپتان بسمہ معروف نے پاکستان ویمنز کرکٹ کی خوب خدمت کی ہے۔ لیکن بطور کھلاڑی انہیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔


دوسری جانب سابق ویمن کرکٹر اور کمنٹیٹر مرینہ اقبال کا کہنا تھا کہ بسمہ معروف کی قیادت سے دست برداری پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے پاس کپتانی کے لیے کوئی دوسرا آپشن نہیں، بورڈ کو بسمہ معروف کو بطور کپتان کام جاری رکھنے کا کہنا چاہیے تھا۔

مرینہ اقبال کہتی ہیں کہ "پاکستان کے پاس اس وقت کپتانی کے لیے بسمہ معروف سے بہتر کوئی آپشن نہیں، لیکن ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم کپتان کی خدمات سے زیادہ ہار جیت کے تناسب پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بطور کپتان اچھی کارکردگی کے باوجود بسمہ کو پاکستان ٹیم کی قیادت سے دست بردار ہونا پڑا۔ـ"

انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں ویمنز کرکٹ کا کوئی انفرااسٹرکچر نہیں، فاطمہ ثنا، ندا ڈار اورطوبیٰ حسن جیسی کھلاڑیوں کو سامنے لانے میں بسمہ معروف کا کردار اہم رہا، وہ خود ایک ایسی کھلاڑی ہیں جو پرفارمنس پر یقین رکھتی ہیں۔

مرینہ اقبال کے خیال میں جس طرح سابق کپتان ثنا میر نے بسمہ کو کپتانی کے لیے تیار کیا۔ اگر اسی طرح بسمہ نے کسی نوجوان کھلاڑی کو گروم کیا ہوتا تو آج یہ بحران نہ پیدا ہوتا جس کا ویمنز کرکٹ ٹیم کو اس وقت سامنا ہے۔

مرینہ کا کہنا تھا کہ اُن کے نزدیک ٹیم کی قیادت کے لیے اس وقت ندا ڈار سب سے بہتر آپشن ہیں کیوں کہ وہ پرفارم بھی کررہی ہیں اور ٹیم کا حصہ بھی ہیں۔

انہوں نے کرکٹ بورڈ سے یہ بھی گزارش کی کہ جو بھی کپتان آئے، اس کے ساتھ کسی ایسے کھلاڑی کو نائب بنایا جائے جس میں اس ٹیم کو آگے لے کر جانے کی صلاحیت ہو۔